کچھ نہ مجھ سے کہو، میری سنتے رہو
جن کی تعبیر میں، خواب بنتے رہو
مجھ سے کہتی تھی یہ، وہ مِری ہمنشیں
خار رہ کے مِرے تم ہی چنتے رہو
میں نے پوچھا مگر کیسے ممکن یہ ہے
بس میں کرتا رہوں جو تُو کہتی رہے
گرچہ مجھ پر ہے حق تجھ کو لیکن سنو
جو تُو چاہے اسے جگ غلامی کہے
یہ سنا تو وہ بولی تُو نادان ہے
گھر بسانے کی ریتوں سے انجان ہے
مجھ کو خانم بنا کر جو رکھے گا تُو
تب ہی تو جگ کہے گا کہ تُو خان ہے
یہ سنا تو میں بولا کہ اے نازنیں
میں تِرا اور تُو ہے مِری ہمنشیں
گرچہ ریتوں رواجوں سے ہوں باخبر
ہاں مگر جو تُو چاہے وہ ممکن نہیں
جب نہ کچھ بن پڑا تو وہ رونے لگی
آنسوؤں کی وہ لڑیاں پرونے لگی
مجھ سے کی اس نے یہ بات روتے ہوئے
میں کبھی بھی نہ تیری ہوں ہونے لگی
اتنا سننا تھا، میں نے بھی جھٹ سے کہا
جا تِرا آج اور اب سے نہیں میں رہا
ہم خفا ہو گئے اور جدا ہو گئے
ضد کا لمحہ تھا اِک عمر بھر پھر سہا

1
86
بہت خوب ۔۔۔ کیا کہنے