کچھ نہ مجھ سے کہو، میری سنتے رہو |
جن کی تعبیر میں، خواب بنتے رہو |
مجھ سے کہتی تھی یہ، وہ مِری ہمنشیں |
خار رہ کے مِرے تم ہی چنتے رہو |
میں نے پوچھا مگر کیسے ممکن یہ ہے |
بس میں کرتا رہوں جو تُو کہتی رہے |
گرچہ مجھ پر ہے حق تجھ کو لیکن سنو |
جو تُو چاہے اسے جگ غلامی کہے |
یہ سنا تو وہ بولی تُو نادان ہے |
گھر بسانے کی ریتوں سے انجان ہے |
مجھ کو خانم بنا کر جو رکھے گا تُو |
تب ہی تو جگ کہے گا کہ تُو خان ہے |
یہ سنا تو میں بولا کہ اے نازنیں |
میں تِرا اور تُو ہے مِری ہمنشیں |
گرچہ ریتوں رواجوں سے ہوں باخبر |
ہاں مگر جو تُو چاہے وہ ممکن نہیں |
جب نہ کچھ بن پڑا تو وہ رونے لگی |
آنسوؤں کی وہ لڑیاں پرونے لگی |
مجھ سے کی اس نے یہ بات روتے ہوئے |
میں کبھی بھی نہ تیری ہوں ہونے لگی |
اتنا سننا تھا، میں نے بھی جھٹ سے کہا |
جا تِرا آج اور اب سے نہیں میں رہا |
ہم خفا ہو گئے اور جدا ہو گئے |
ضد کا لمحہ تھا اِک عمر بھر پھر سہا |
معلومات