Circle Image

عمانوئیل نذیر مانؔی

@Emmanuel

ختم ہونے لگی ہے تنہائی
آنکھ میری خوشی سے بھر آئی
کم سنی میں تجھے محبت ہے
خوب ہو گی تری پذیرائی
کون مرتا ہے کب کسی کے لئے
بات میری سمجھ میں اب آئی

4
شخص ایسا کوئی نہیں مِلتا
جو مرے ساتھ دو قدم چلتا
اُس سے بچھڑے تو اک زمانہ ہوا
زخم جانے یہ کیوں نہیں بھرتا
تھم گیا ہے یہ درد کا سورج
اب کسی طور ہی نہیں ڈھلتا

0
10
روشنی کے سوا اور کیا چاہیے
کوزہ گر بس مجھے اک دیا چاہیے
سانس لینے میں دقت نہ ہو ایک پل
غم کے ماروں کو ایسی جگہ چاہیے
ان مضافات میں مجھ کو رہنا ہے اب
ان پہاڑوں کی ٹھنڈی ہوا چاہیے

1
12
ذہن و دل میں یوں پیار الجھا ہے
عشق پاگل ہے کب یہ سمجھا ہے
جِن کی آنکھوں کا خواب ٹُوٹا ہو
اُن کا لہجہ اُداس ہوتا ہے
کیوں ہوا آ کے بین کرتی ہے
دشت میں جانے کون روتا ہے

6
غزل
روتا ہے کس لئے اے مرے دل مجھے بتا
ملتا کہاں ہے سب کو یہاں پیار کا صلہ
مُشکِل بڑا تھا ہجر کے رستوں کو ناپنا
دریا نے خُودکُشی کی سمندر میں جا گِرا
مَیں نے تو مسکرا کے بھی دیکھا ہے ایک عمر

1
17
جب زمیں پر دیے جلاتے ہیں
چاند تارے بھی مُسکراتے ہی
اِتنا کہنا تھا پیار ہے تُم سے
لفظ ترتیب بُھول جاتے ہیں
دل میں منزل کی جستجو ہی نہیں
بیچ رستے سے لوٹ آتے ہیں

0
8
کبھی جنوب کبھی یہ شمال بخشا ہے
نفس نفس کو ہی ہجر و وصال بخشا ہے
تمام شہر کی آنکھوں میں تم ہی رہتے ہو
تُمہیں خُدا نے غضب کا جمال بخشا ہے
خدا کا شکر کہ اب ساتھ ہی رہیں گے ہم
بڑے ہی پیار سے اس نے یہ سال بخشا ہے

0
7
مَیں سرِ مقتل لئے سر آ گیا
دیکھ کر دشمن مرا گھبرا گیا
عشق نے بخشا مجھے اتنا عروج
مَیں زمیں سے آسماں تک آ گیا
میں بظاہر مسکراتا ہوں بہت
مجھ کو اندر سے ترا غم کھا گیا

0
6
تیرے کہے پہ خود کو مَیں کیوں کر بناؤں گا
جو ہو سکا تو خود کو ہی بہتر بناؤں گا
پہلے بھروں گا چاشنی پھولوں میں پیار کی
مَیں تتلیوں کے بعد میں پھر پر بناؤں گا
احساسِ کمتری بھی کوئی چیز ہے جناب
دیوار کے بغیر بھی اک در بناؤں گا

0
10
رتجگوں کے عذاب لِکھ دینا
کوئی پُر درد خواب لِکھ دینا
یہ مُحبّت بھی اک عبادت ہے
اِس کو کارِ ثواب لِکھ دینا
راہ تکتا ہوں روز قاصد کی
میرے خط کا جواب لِکھ دینا

0
11
آئے ہو تم اچھالنے کے لئے
درد ہوتے ہیں پالنے کے لئے
کتنے پتھر تراش ڈالے ہیں
ایک بت کو نکالنے کے لئے
رنج و غم نے اجاڑ ڈالا ہے
تم نہ ائے سنبھالنے کے لئے

0
10
حقیقت کچھ نہیں وہم و گماں ہے
یہاں تو عشق بھی زورِ بیاں ہے
ترے لوگوں پہ ٹُوٹی ہے قیامت
مرے مالک تو ایسے میں کہاں ہے
سِتارے آسماں سے جھانکتے ہیں
زمیں پر تیرگی دیکھو جہاں ہے

0
11
سانحہ جڑانوالہ
پہاڑ غم کے گِرا رہے ہیں
خدا کے گھر کو جلا رہے ہیں
یہ ظلم ڈھاتے رہے ہیں پہلے
ہمیں ستاتے رہے ہیں پہلے
جو آج ہم کو ستا رہے ہیں

0
16
راس آئے گی بے گھری ہم کو
یہ سکھاتی ہے زندگی ہم کو
اِن اندھیروں سے خوف مت کھانا
کہہ رہی ہے یہ روشنی ہم کو
زندگی نے عطا کیا ہے بہت
ایک تیری رہی کمی ہم کو

0
15
مرے مالک خداوندا خدایا
سدا ہم پر رہے رحمت کا سایہ
فلک سورج زمیں اور چاند تارے
بڑے دلکش ہیں یارب سب نظارے
نظر ہر ایک منظر میں تُو آیا
سمندر اور دریا کی روانی

0
20
رنگ آنکھوں میں بھرنے دو
مُجھ کو محبت کرنے دو
چھوڑو دُنیا والوں کو
جلتے ہیں تو جلنے دو
یہ ہیں پُھول محبت کے
اِن پُھولوں کو کِھلنے دو

0
24
آنکھوں میں ہے پیار کا منظر
تصویرِ دل دار کا منظر
اب تو دیکھنے آتے ہیں سب
تیرے اس بیمار کا منظر
اک تصویر بناؤ ایسی
جس میں ہو دیوار کا منظر

0
16
تُجھ سے اتنا پیار کروں گا
اپنوں کو اغیار کروں گا
تیرے ساتھ رہوں گا ہر دم
ہر رستہ ہموار کروں گا
دِل کو کتنا چین مِلے گا
جب تیرا دیدار کروں گا

0
28
عشق سمندر گہرا ہے
مَیں نے ڈوب کے دیکھا ہے
بھیگ رہا ہے بارش میں
پھر بھی کوئی پیاسا ہے
اُس نے مُجھ کو چاہا ہے
مَیں نے اُس کو چاہا ہے

18
دَورِ ظلمت دیس سے جانے والا ہے
امن پرندہ پر پھیلانے والا ہے
بن جائے گا زینت مفلس ہونٹوں کی
وقت نیا اب گیت وہ گانے والا ہے
یہ بتلا دے یار کتابِ زیست میں کیا
حادثہ کوئی دل دہلانے والا ہے

0
30
تُو ہے میرا پیار یہ تجھ سے کہنا ہے
اے میرے دلدار یہ تجھ سے کہنا ہے
کتنی اچھی مورت دیکھ تراشی ہے
دیکھ اپنا شہکار یہ تجھ سے کہنا ہے
تیرے ساتھ اے وقت میں بھاگ نہیں سکتا
دھیمی ہے رفتار یہ تجھ سے کہنا ہے

0
33
تمام عمر شبِ غم بُھلا نہیں سکتے
یہ بھاری ہجر کا پتھر اُٹھا نہیں سکتے
خُدا کے بعد تجھے کتنا پیار کرتے ہیں
یہ دل کی بات کسی کو بتا نہیں سکتے
ہم اپنی خاک فقط کوزہ گر کو سونپیں کے
دھویں کے ساتھ ہوا میں اُڑا نہیں سکتے

0
27
اُس نے ملنے آنا ہے
یہ بھی خواب سہانا ہے
اس کی آنکھوں سے مَیں نے
آج اک رنگ چرانا ہے
مَیں نے ذہن میں رکھنا ہے
اُس نے بُھول ہی جانا ہے

2
49
تمہاری آنکھ میں کھلتے گلاب دیکھے ہیں
تو خواب ہم نے بھی تازہ جناب دیکھے ہیں
امیرِ شہر کو اِس کی خبر کہاں کوئی
غریبِ شہر نے کتنے عذاب دیکھے ہیں
ہماری پیاس کی شدت ہے اس قدر یارو
کہ رات دشت میں ہم نے چناب دیکھے ہیں

35
تم ہی آنکھ کا تارا ہو
میرا پیار نظارہ ہو
چپکے چپکے روتا ہے
شاید درد کا مارا ہو
ہنستے ہنستے سہہ لوں گا
جتنا بھی دُکھ بھارا ہو

38
چار دِنوں کے میلے ہیں
لیکن بہت جھمیلے ہیں
ایک اداسی چھائی ہے
درد و غم کے ریلے ہیں
میٹھی باتیں کرتے ہیں
دوست مرے البیلے ہیں

0
24
عمر کا سورج ڈھلتا ہے
موت کا خوف بھی بڑھتا ہے
وقت ملے بتلاؤں گا
میرے دل میں کیا کیا ہے
مُجھ کو اچّھا لگتا ہے
اِس کا مطلب اچّھا ہے

0
22
فلک پر چاند تارے جاگتے ہیں
کہ شب بھر غم کے مارے جاگتے ہیں
ابھی تک دل تُجھے بُھولا نہیں ہے
ابھی تک زخم سارے جاگتے ہیں
وہ جب سے شہر میں آیا ہوا ہے
جِدھر دیکھوں نظارے جاگتے ہیں

0
25
بات پرانی یاد آتی ہے
پیار کہانی یاد آتی ہے
بیچ سمندر ڈوبتا سورج
شام سہانی یاد آتی ہے
جس نے کیا دیوانہ مجھ کو
وہ دیوانی یاد آتی ہے

0
46
دشت کہانی رہنے دو
بات پرانی رہنے دو
اِن یادوں کی گٹھڑی میں
شام سہانی رہنے دو
یاد کا دریا میٹھا ہے
آنکھ میں پانی رہنے دو

0
25
مرا دُشمن ستارا ہو رہا ہے
مُحبّت میں خسارہ ہو رہا ہے
مرے حالات کچھ بدلیں گے شاید
کہ خوابوں میں اِشارہ ہو رہا ہے
تمہیں دیکھے بنا ہے خاک جینا
بڑا مُشکِل گزارہ ہو رہا ہے

0
36
تُو ہے میری جان زمانہ کیا جانے
تُجھ پہ مَیں قربان زمانہ کیا جانے
سب کہتے ہیں میری آنکھیں ہنستی ہیں
لیکن دِل ویران زمانہ کیا جانے
تُجھ کو بُھول مَیں جاؤں دُنیا کہتی ہے
کب ہے یہ آسان زمانہ کیا جانے

0
42
پُھول ہیں جس کے ہاتھوں میں
خُوشبو اُس کی باتوں میں
دِن کو بے کل رہتا ہے
اور بے چین وہ راتوں میں
کر ہی ڈالی دِل کی بات
مًیں نے باتوں باتوں میں

54
تیرا میرا مِلنا مُشکل
پُھول کا باغ میں کِھلنا مُشکل
سچّا میں اِنسان ہوں لیکن
سچّی بات ہے لِکھنا مُشکل
اپنے دور کا سورج ہوں مَیں
میرا اب ہے ڈھلنا مُشکل

47
ہم جو مِلے ہیں ساون میں
لوگ جلے ہیں ساون میں
کتنے گہرے زخم تھے وہ
اب جو سِلے ہیں ساون میں
جیتی بازی پیار کی ہم
ہار چلے ہیں ساون میں

29
یوں سمجھو اوقات کی خاطر
ہم بدلے حالات کی خاطر
پتّھر دل بھی پگھلے دیکھے
آنکھوں میں برسات کی خاطر
شام کو میلہ لگتا ہے اب
میری تنہا ذات کی خاطر

49
مُجھے اِس غم کے دریا کا کِنارا ہی نہیںں مِلتا
کہ ڈُوبا اس طرح سے ہوں سہارا ہی نہیں ملتا
مُجھے اب آسمانوں کو بھی شاید کھوجنا ہوگا
جو اُس کی طرح سے چمکے سِتارا ہی نہیں مِلتا
مرے شعروں کو سمجھیں گے جہاں والے بھلا کیسے
یہاں تو دل لگی میں کوئی ہارا ہی نہیں ملتا

23
بخت تُونے ہمارے سنوارے وطن
میرے پیارے وطن میرے پیارے وطن
پُھول، خوشبو، ہوائیں یہ پربت سبھی
میری آنکھوں کے ہیں چاند تارے وطن
میرے پیارے وطن میرے پیارے وطن
تُجھ کو مل کے بنائیں گے جنت نُما

25
لوٹ کر آئے نہیں شہر سے جانے والے
جانے کس دیس میں جاتے ہیں نہ آنے والے
ہم نے ہر بار وفاؤں کی سزا پائی ہے
ہم نے دھوکے یہاں کھائے ہیں نہ کھانے والے
ہم نے اِس کارِ محبت میں قدم رکھا تھا
ہم وہ عاشق ہیں میاں دشت بسانے والے

0
2
54
اب بہکنے سے نہ روکے کوئی
بس تڑپنے سے نہ روکے کوئی
ہم اُڑانوں پہ یقیں رکھتے ہیں
ہم کو اڑنے سے نہ روکے کوئی
ہم نے مانگی تھی دعا بارش کی
اب برسنے سے نہ روکے کوئی

0
26
غریبِ شہر تو کب سے دہائی دیتا ہے
امیرِ شہر کو اونچا سنائی دیتا ہے
کہ تُجھ سے آگے مجھے کچھ نظر نہیں آتا
وہ میری آنکھ کو تُجھ تک رِسائی دیتا ہے
کسی کسی پہ ہی آتا ہے پیار اُس کو بھی
کسی کسی کو وہ ساری خُدائی دیتا ہے

0
41
سب دُنیا سے پیارا ہوں مَیں
تیری آنکھ کا تارا ہوں مَیں
ایسے دُنیا دیکھ رہی ہے
جیسے ایک نظارہ ہوں مَیں
اُس سے میری قیمت پوچھو
جِس کو جان سے پیارا ہوں مَیں

0
23
غم کے دریا کو پار کر لوں گا
مَیں ترا انتظار کر لوں گا
مَیں تری ایک مُسکراہٹ پر
زندگانی نثار کر لوں گا
عشق کو تُم خطا سمجھتے ہو
یہ خطا بار بار کر لوں گا

0
46
خواب اِک ہولناک دیکھا ہے
اِس لئے دل شدید دھڑکا ہے
تیری ہستی میں تیری مستی میں
زندگی کا سراغ پایا ہے
کِس نے ایسے کسی کو کب چاہا
جِس طرح میں نے تُجھ کو چاہا ہے

0
46
اے خُدا اب دِکھائی دے مجھ کو
درد و غم سے رہائی دے مُجھ کو
میری آنکھوں کو وہ بصارت دے
تیری صُورت دِکھائی دے مجھ کو
تُو چھپا کائنات میں ہے کہاں
تیری آہٹ سنائی دے مجھ کو

0
39
میرے دِل کے قریب تھا پہلے
کوئی میرا حبیب تھا پہلے
اپنے لفظوں سے اب وہ ڈرتا ہے
جو بظاہر ادیب تھا پہلے
دوستوں میں شُمار ہوتا ہے
جو کہ میرا رقیب تھا پہلے

0
39
پہلی بارش برسی ہے
دل کی مٹی مہکی ہے
میں نے ساون آنکھوں میں
پیار کی بدلی دیکھی ہے
چاند اترا ہے ندّی میں
ندّی نیند سے جاگی ہے

0
17
تمہیں مبارک تمام خوشیاں مَیں آج سب کچھ ہی ہار لوں گا
یہ چار دن ہیں جو زندگی کے بِنا تمہارے گزار لوں گا
مُجھے خبر ہے کہ تُو بھی مُجھ سے کرے محبّت بلا کی آخر
پڑی ضرورت تو جانِ جاناں مَیں نام تیرا پکار لوں گا
یہ لوگ سارے جہاں پہ جا کر پکارتے ہیں خدا کو اپنے
کہ مَیں بھی اپنا نصیب جا کر اُسی کے در پر سنوار لوں گا

0
28
تنہائی کا خوف ڈرانے لگتا ہے
جب وہ مُجھ سے ہاتھ چُھڑانے لگتا ہے
کالی راتیں تیز ہوائیں لاتی ہیں
جب بھی کوئی دیپ جلانے لگتا ہے
لگتا ہے یہ آنکھ کا دریا سُوکھے گا
اشکوں میں یہ ریت بہانے لگتا ہے

0
30
یہ قیامت کبھی بھی ڈھانا نہیں
مُجھ کو اے دوست بُھول جانا نہیں
رشتے کمزور پڑ گئے ہیں بہت
پہلے جیسا یہ اب زمانہ نہیں
مُجھ سے مِلنے نہیں وہ آیا آج
یاد اس کو کوئی بہانہ نہیں

0
22
مجھے وہ نئی اک ادا دے گیا
عجب زندگی کا مزا دے گیا
سفارت اجالوں کی سونپی مجھے
چراغوں کو میرا پتہ دے گیا
کبھی مثلِ خُوشبو معطر کیا
کبھی سرد رُت کی ہوا دے گیا

0
43
وہ خوش مزاج مری زندگی کا حِصّہ ہے
اسی لئے تو مرے آس پاس رہتا ہے
تمام شہر کی آنکھوں میں تم ہی رہتے ہو
خدا نے تم کو غضب کا جمال بخشا ہے
مَیں جانتا ہوں کے وہ شخص کتنا اچھا ہے
تو بات بات پہ جس کی مثال دیتا ہے

0
36
دوستوں کی دوستی
میں چُھپی ہے زندگی
کُچھ نظر آتا نہیں
اس قدر ہے تیرگی
دِل کے کونے میں کہیں
رہ گئی ہے ان کہی

0
38
آج بچھڑے جو ملنے والے ہیں
پھول شاخوں پہ کھلنے والے ہیں
جن کی تصویر میں بناتا ہوں
وہ تو چہرہ بدلنے والے ہیں
ظلمتِ شب ہماری بستی کے
آخری دیپ بُجھنے والے ہیں

0
40
ٹُوٹ کر اس طرح سے پیار نہ کر
جانے والے کا انتظار نہ کر
پُھول جیسا ہے دوست یہ جیون
زندگانی کو مِثلِ خار نہ کر
لوٹ بھی آ وفا کے رستے پر
موسمِ گُل کو بے قرار نہ کر

0
28
کِس کو کھونا ہے کس کو پانا ہے
زندگی بھی عجب فسانہ ہے
کون کر پائے گا مُجھے تسخیر
کِس نے دل میں اترتے جانا ہے
اب تو ہر پل ہی زخم سہنے ہیں
اب تو ہرپل ہی مُسکرانا ہے

0
34
ہم نے یہ بات آزمائی ہے
بے وفائی تو بے وفائی ہے
جھوٹ سچ کا گماں نہیں ہوتا
اس کی باتوں میں کیا صفائی ہے
دِل دھڑکنا ہی جیسے بّھول گیا
اُس نے ایسی خبر سنائی ہے

0
30
چاند سُورج اور ستارے ہاتھ میں
خواب میں دیکھے تمھارے ہاتھ میں
آنکھ رکھ آیا تری دہلیز پر
اور اُٹھا لایا نظارے ہاتھ میں
مَیں نے دیکھا ہے سمندر آنکھ میں
آنکھ سے بہتے ہیں دھارے ہاتھ میں

0
25
اکثر اپنا پیار جتانے آتا ہے
مَیں رُوٹھوں تو یار منانے آتا ہے
جو منزل اور رستے سے بے بہرہ ہو
وہ بھی مجھ کو راہ دکھانے آتا ہے
شہزادے کے بھیس میں کوئی راتوں کو
شہزادی کے خواب چُرانے آتا ہے

0
13
زندہ درد کہانی رکھنا
اپنی آنکھ میں پانی رکھنا
رکھنا مشکل آسانی میں
مشکل میں آسانی رکھنا
مُجھ سے نفرت کرنے والے
میرا پیار نِشانی رکھنا

0
40
میری سانسیں، اسی کی سانسیں ہیں
جس کی باتیں حسین باتیں ہیں
شور کرتی تھیں اس کے آنے پر
اب یہ خاموش سی جو راتیں ہیں
ڈور سانسوں کی اس کے ہاتھ میں ہے
جس کی بخشی ہوئی یہ سانسیں ہیں

0
47
جِن سے ہوتے ہیں رشتے سانسوں کے
سانپ ڈستے ہیں اُن کی باتوں کے
رزق تقسیم کرنے والے دیکھ
لوگ مارے ہوئے ہیں فاقوں کے
خامشی جس نے اوڑھ رکھی تھی
اب تو چرچے ہیں اس کی باتوں کے

0
40
بعد مدت کے مُسکراتے ہیں
درد و غم سے نِکل کے آتے ہیں
اِس سے پہلے کہ دیر ہو جائے
حالِ دل ہم اّسے سُناتے ہیں
آنکھ جب خواب دیکھتی ہے ترا
دل میں جگنو سے جھلملاتے ہیں

0
28
ہجر سے اس لئے نہیں ڈرتے
دید کی آرزو نہیں کرتے
اس قدر دوریاں نہیں اچھی
تم مرے ساتھ کیوں نہیں چلتے
لوگ ایسے بھی ہم نے دیکھے ہیں
جو کہ مر کر کبھی نہیں مرتے

0
26
کوئی اتنا برا نہیں ہوتا
وقت بس ایک سا نہیں ہوتا
پھر بھی اک راستہ تو ہوتا ہے
جب کوئی راستہ نہیں ہوتا
حادثوں کے سبب پہ غور کرو
بے سبب حادثہ نہیں ہوتا

0
35
اُلفتوں کے درمیاں
نفرتوں کے درمیاں
رو رہی ہیں خواہشیں
حسرتوں کے درمیاں
کُچھ مُسافِر ہیں پڑے
راستوں کے درمیاں

0
43
تُم کو دل میں ہے اتارا عمر بھر
ساتھ چاہوں گا تمہارا عمر بھر
اے خُدا مَیں اس کے آدھے پیار میں
اب کروں کیسے گزارا عمر بھر
وہ بہے دریا کے پانی کی طرح
مَیں رہوں اُس کا کِنارا عمر بھر

0
67
پیش ہر اک گام دلدل ہے مجھے
کیا بتاؤں کیسی مشِکل ہے مجھے
کیا جئیں گے فاقہ کش افلاس میں
بس یہی اک سوچ ہر پل ہے مجھے
ڈھونڈ لاؤں گا عِلاج تیرگی
عظمتِ انسان افضل ہے مجھے

0
47
خامشی بھی سُنائی دیتی ہے
جب وہ صُورت دِکھائی دیتی ہے
زندگی بھی تو اک قفس میں ہے
موت آ کر رہائی دیتی ہے
چاک پر مَیں دیے بناتا ہوں
روشنی رہنمائی دیتی ہے

0
45
مَیں قدموں میں پھیلا ہوں
تیرے گھر کا رستہ ہوں
ہے برہا کی دُھوپ کڑی
مَیں چھایا کو ترسا ہوں
خوف ہے تیز ہواؤں کا
میں اِک ٹوٹا پتہ ہوں

0
46
بات کرتے ہیں جو چراغوں پر
رشک آتا ہے ان کی باتوں پر
بھوک سے سامنا ہوا ہے کیا
تم بھی لکھنے لگے ہو فاقوں پر
کتنی چاہت سے اُس نے میرا نام
لِکھ لیا ہے حسین ہاتھوں پر

0
46
تُم بھی مِلتے ہو اجنبی کی طرح
یعنی تُم بھی ہو زندگی کی طرح
تیرگی ختم ہو گئی ساری
تُم نظر آئے روشنی کی طرح
میرے نغموں میں جان تم سے ہے
میرے ہونٹوں پہ ہو ہنسی کی طرح

0
56
بُجھتی آنکھوں کو خواب دیتی ہیں
مُجھ کو شامیں عذاب دیتی ہیں
پڑھنے والے کو بھانپ کر آنکھیں
راز اپنے جناب دیتی ہیں
جب مرا دل سوال کرتا ہے
اس کی آنکھیں جواب دیتی ہیں

0
43
جب نِکالے گئے کہانی سے
اشک بہنے لگے روانی سے
ایک ہی بوند پیاس ہو جس کی
کیا غرض اس کو بہتے پانی سے
تیری محفل میں روشنی ہے مگر
رنگ تھا دوستی پرانی سے

0
32
کب کسی کو مِلی بے وفا سے وفا
پھر بھی اچھی لگی بے وفا کی ادا
دل میں الفت کا جو بیج بویا گیا
دیکھ ساون میں وہ پُھول بن کر کِھلا
روشنی سے اسے بھی بڑا پیار ہے
اِس لئے رکھ دیا ہے جلا کر دیا

0
34
اپنی آنکھوں کے وار کرتی ہے
تیرگی بے قرار کرتی ہے
سانس کا تجربہ بتاتا ہے
موت حملے ہزار کرتی ہے
زندگی عشق بھی نشہ ہے کیا
کیوں خطا بار بار کرتی ہے

0
29
دِل سے تمہاری یاد کو مِٹنے نہیں دیا
ہم نے کسی بھی زخم کو بھرنے نہیں دیا
چھوڑا نہیں ہے ضبط کا دامن ابھی تلک
آنکھوں سے ایک اشک بھی گِرنے نہیں دیا
ماں کی دعائیں ساتھ ہمیشہ رہیں مرے
مجھ کو کبھی زمین پہ گرنے نہیں دیا

0
28
خُود سے مجھ کو گِلہ نہیں کوئی
گرچہ تُجھ سا مِلا نہیں کوئی
لاکھ کوشش کے باوجود میاں
زخمِ دِل ہی سِلا نہیں کوئی
یار اِس مطلبی زمانے میں
چاہتوں کا صِلہ نہیں کوئی

0
26
سِتارے بات کرتے ہیں
تو سارے بات کرتے ہیں
مَیں جب خاموش ہوتا ہوں
خسارے بات کرتے ہیں
اِشاروں کی زباں سمجھو
اِشارے بات کرتے ہیں

0
40
عہد و پیماں بدلتے دیکھے ہیں
کتنے اِنساں بدلتے دیکھے ہیں
ہر طرف ہو گئی زمیں بنجر
جب سے دہقاں بدلتے دیکھے ہیں
دوستو زندگی کے صدموں سے
ہم نے ایماں بدلتے دیکھے ہیں

0
37
دل میں اک دلدار ہے رکھا
ہر اک سانس میں پیار ہے رکھا
اک جانب ہے پیار کی دولت
اک جانب سنسار ہے رکھا
منزل بھی دشوار ہے اپنی
رستہ بھی دشوار ہے رکھا

0
39
خواب آنکھوں میں جو پروتے ہیں
منزلوں کے قریب ہوتے ہیں
بات نفرت کی جو نہیں کرتے
امن کے وہ نقیب ہوتے ہیں
عُمر گزری ہے دشت میں اُن کی
چین کی نیند اب جو سوتے ہیں

0
35
ہجر کے ساتھ ہاتھ ہو جائے
رنج و غم سے نجات ہو جائے
روشنی بانٹ دو زمانے میں
اس سے پہلے کہ رات ہو جائے
پہلے دیدار ہو مجھے تیرا
پھر فنا میری ذات ہو جائے

0
44
مُسکرانے کی دیر ہے باقی
جھلملانے کی دیر ہے باقی
میں نے رکھ دی ہیں طاق پر آنکھیں
اُس کے آنے کی دیر ہے باقی
خاک ہو جائے گی تری شہرت
سچ بتانے کی دیر ہے باقی

0
36
دردِ ہِجراں تُجھے چُھپاتے ہوئے
اشک بہتے ہیں مُسکراتے ہوئے
ٹُوٹ سکتی ہے ڈور سانسوں کی
سانس کے اِس طرح سے آتے ہوئے
اپنے حِصّے کا تُم جلاؤ دِیا
کچھ نہ سوچو دِیا جلاتے ہوئے

0
51
آندھیوں میں دئے جلائیں گے
دشت میں راستہ بنائیں گے
بے نشاں منزلوں کے راہی ہیں
کیا مُسافر یہ تھک نہ جائیں گے ؟
ہم کو دشتِ سخن میں رہنے دو
پیار کے پُھول ہم کھلائیں گے

0
37
اک شخص کر گیا ہے سپنے مرے اُداس
کُوچے مرے اُداس ہیں رستے مرے اُداس
ماتم منا رہا ہوں کسی کی جدائی کا
آہیں مری اُداس ہیں نوحے مرے اُداس
کس نے زہر یہ گھولا ہے میری مِٹھاس میں
لہجہ مرا اُداس ہے قِصّے مرے اُداس

0
44
گاؤں سے جب مَیں شہر آیا تھا
خواب آنکھوں میں باندھ لایا تھا
تُونے ٹھکرا دیا محبت کو
دل ہتھیلی پہ دھر کے لایا تھا
آبلے پڑ گئے تھے پاؤں میں
یاد ہے کتنا چل کے آیا تھا

0
52
مُجھ سے کہتا ہے غم کا مارا ہوا
میں بھی تیری طرح ہوں ہارا ہوا
ہے خبر یہ جہان کچھ بھی نہیں
مَیں ہوں اِک خواب میں اُتارا ہوا
تم ہی ٹھہرو گے انتخاب مرا
عشق مُجھ کو اگر دوبارہ ہوا

0
37
جب بھی درد کہانی لِکھنا
بوجھ سے چُور جوانی لکِھنا
اُس کے چہرے کی شادابی
میری آنکھ کا پانی لکِھنا
جب بھی لکِھنا مُجھ کو ساجن
بس اپنی دیوانی لکِھنا

0
26
نقش سارے مِٹا کے آیا ہوں
اُس کی یادیں بُھلا کے آیا ہوں
اِک سمندر ہے آنکھ میں باقی
ایک دریا بہا کے آیا ہوں
عین ممکن ہے وقت کروٹ لے
ایک دنیا جگا کے آیا ہوں

0
33
کیا خوشنما ہیں آج نظارے زمین پر
اُترے ہیں آسمان سے تارے زمین پر
خوشبو، ہوائیں، پھول یہ کُہسار اے خدا
تیرے ظُہور کے ہیں اِشارے زمین پر
آنکھوں میں وحشتوں کے شرارے لئے ہوئے
دیکھے ہیں ہم نے درد کے مارے زمین پر

0
45
یوں تو چھوٹی سی زندگانی ہے
رنج و غم سے بھری کہانی ہے
اِس میں کردار ہیں بہت یارو
پل دو پل کی مگر جوانی ہے
آنکھ سے پوچھتا ہے دل میرا
تیرے کُوزے میں کتنا پانی ہے

0
33
سب سے اچھا تیرا نام
تیرے نام پہ رکھا نام
میں نے سیکھے حرف بہت
لِکھ پایا بس تیرا نام
عشق میں ہم بدنام ہوئے
آنکھ میں ابھرا تیرا نام

0
31
دِل کی دُنیا اُداس ہو گئی ہے
کیا کوئی بات خاص ہو گئی ہے
جانے کِس گُل بدن کی خوشبو ہے
جو ہمارا لباس ہو گئی ہے
کِتنی انمول آنکھ ہے میری
جب سے مردم شناس ہو گئی ہے

0
43
ہو نہیں سکتا ستارا ایک سا
وقت کس نے کب گزارا ایک سا
چاہتوں میں شِدّتیں بھی ایک سی
چاہتوں میں ہے خسارا ایک سا
دردِ دنیا کے لئے روتے ہو تّم
دل ہے میرا اور تمہارا ایک سا

0
34
اُلجھا ہوا ہوں مَیں بھی خیالوں کے درمیاں
آہوں کے درمیاں کبھی نالوں کے درمیاں
آنکھوں میں خواب رکھ کے یہ سوچے ہیں بیٹیاں
چاندی چمکنے لگ گئی بالوں کے درمیاں
پیچھے پلٹ کے دیکھا تو حیران رہ گیا
کتنا بدل گیا ہوں میں سالوں کی درمیاں

0
32
غم کے مارے جو مّسکرائے ہیں
تیری چاہت نے گُل کِھلائے ہیں
جو خوشی بھی مِلی ادھوری تھی
ہم نے ایسے نصیب پائے ہیں
تم زمانے سے ڈر گئے صاحب
ہم نے اپنوں سے زخم کھائے ہیں

0
26
مجھ کو دیکھنے والی آنکھیں
چاہت سے ہیں خالی آنکھیں
اِک دِن پتھر ہو جائیں گی
رستہ دیکھنے والی آنکھیں
اّس کے ہونٹوں پر جو تِل ہے
کرتی ہیں رکھوالی آنکھیں

0
28
زرد رُتوں میں پُھول کِھلانے آیا ہوں
دھرتی کو گلزار بنانے آیا ہوں
اپنے حِصّے کا کرنا ہے کام مجھے
مَیں دنیا میں دیپ جلانے آیا ہوں
مَیں آنکھوں میں اشکوں کا سیلاب لئے
اپنے دل کی پیاس بُجھانے آیا ہوں

0
47
تُو نہ آیا مُجھے منانے کو
کیا مَیں سمجھوں ترے بہانے کو
دِل جُدائی نے چاٹ ڈالا ہے
لوگ کہتے ہیں مُسکرانے کو
وار تیرا خطا نہیں ہوتا
جانتا ہوں ترے نشانے کو

0
21
دِل فِدا ہو گیا نَظاروں پر
حُسن اُترا ہے کیا بہاروں پر
ہم مُسافر ہیں ساحلوں کے یہاں
ہم کو ڈھونڈا کرو کِناروں پر
اُس بلندی پہ آ گئے ہیں ہم
دسترس ہم کو ہے ستاروں پر

0
28
آنکھ میں اِنتظار دیکھا ہے
شخص اک بے قرار دیکھا ہے
میری خوشیوں میں میرے ساتھ رہا
غم میں جو اشک بار دیکھا ہے
اُس کی آنکھوں میں بس گیا ہے تُو
جس نے بھی تیرا پیار دیکھا ہے

0
20
پھیلا تھا جو سُخن کے سوال و جواب میں
وہ شخص کُھل رہا ہے ہماری کِتاب میں
بے رنگ موسموں کو بھی کردے گی مُشکبار
خُوشبو جو پل رہی ہے مہکتے گلاب میں
موجوں نے جب سے سحر زدہ کر دیا مُجھے
تب سے کوئی پکار رہا ہے چناب میں

0
23
وفا کے عِوض بے وفائی نہ دینا
بس اِک اِلتجا ہے جُدائی نہ دینا
مُحبّت ہے تجھ سے کہ دیوانگی ہے
سِوا تیرے کچھ بھی دِکھائی نہ دینا
خُدا تُجھ سے اب میں یہی مانگتا ہوں
کہ دُشمن کو مجھ تک رسائی نہ دینا

0
13
جب بھی رب سے مانگے حرف
لوحِ دل پہ چمکے حرف
میں نے آنکھ میں رکھے خواب
اور لبوں پر رکھے حرف
پیار کا بھیگا موسم اور
بھیگیں یادیں بھیگے حرف

0
23
غزل
میری یادیں اُجالتا ہے کوئی
اب بھی مُجھ کو پُکارتا ہے کوئی
میری سوچوں پہ اُس کا پہرہ ہے
شعر میرے نِکھارتا ہے کوئی
جیسے جلتے دئے منڈیروں پر

0
22
تجھ سی آنکھیں کہیں نہیں ملتیں
تجھ سا چہرہ کہیں نہیں ملتا

29
بھُول جاتا ہوں باقی سب باتیں
چاند چہرہ بُھلا نہیں پاتا

30
اترتے شعر ہیں مجھ پر جو اک تواتر سے
بڑا ہے موزوں دسمبر سخن وری کے لئے

0
56
آپ اپنی مِثال ہیں آنکھیں
اور مُسکان بھی مثالی ہے

0
38
درد کے قصے سُناتی ہے ہوا
اُس کو چُھو کر جب بھی آتی ہے ہوا
رقص کرتے ہیں اندھیرے چار سُو
جب دیا کوئی بُجھاتی ہے ہوا
مَیں نے دیکھا ہے یہ منظر دوستو
پانیوں پر جھلملاتی ہے ہوا

0
57
جانے وہ کون ہے کہاں ہے وہ
جِس کو آنکھیں تلاش کرتی ہیں

0
36
پُھول ہے یا خار ہے
زندگی سے پیار ہے
جا رہا ہوں جِس طرف
راستہ دُشوار ہے
تِیر اُس کی آنکھ کا
اِس جِگر کے پار ہے

0
34
اُس کی تعریف جب بھی کرتا ہوں
بات آنکھوں پہ ختم ہوتی ہے

0
30
تُجھ سا کوئی نہیں زمانے میں
تُجھ سا چہرہ کہیں نہیں مِلتا

0
70
اُس کے چہرے کی دیکھ کر رنگت
پُھول شاخوں پہ مُسکراتے ہیں

0
31
کچھ بھی باقی نہیں رہا مانی
باقی دِکھتا ہے جو نہیں باقی

0
47
شِکستہ دِل ہیں فضا ہے بوجھل
گُزر جا تیزی سے اے دِسمبر

0
67
اِس سے پہلے کہ دیر ہو جائے
دیر تک بات چِیت کرتے ہیں

0
36
حادثے کیا روک پائیں گے اسے
عزم جس کا ہے چٹانوں کی طرح

0
39
جانے کس کرب میں نہیں سوتے
رات آنکھوں میں کاٹنے والے

0
23
جب مرا خواب ٹوٹ جاتا ہے
چوٹ لہجے پہ آ کے لگتی ہے

0
40
پیار سے اِس طرح نہ دیکھا کر
شعر سارے میَں بُھول جاتا ہوں

0
32
جانے والے کو میں نہ روک سکا
آنے والا بھی خود چلا آیا

0
45
وقت نے جینے کا فن سِکھلا دیا
یہ بھی شامِل ہے مرے استادوں میں

0
43
میرے اندر کڑی عدالت ہے
دیکھئے فیصلہ کیا آتا ہے

0
38
اُس کی ہر اِک ادا بھلی ہے مگر
ہم نے ساجن کی بے رخی لے لی
بُجھ نہ پائیں یوں ٹِمٹماتے رہیں
ہم نے جُگنو سے روشنی لے لی

42
ایک رستہ کُھلا ہی ہوتا ہے
جب کوئی راستہ نہیں ہوتا
حادثے راستہ بناتے ہیں
راہ میں حادثہ نہیں ہوتا

0
39
دِل کو بس ایک ہی شکایت ہے
کھول دیتی ہیں بھید سب آنکھیں

0
30
گو مَیں آیا ہوں دیر سے مانی
اپنا رستہ بنا کے آیا ہوں

0
29
رب نے اُس کو اُتارا یوں مُجھ پر
جِس طرح آخری صحیفہ ہو

32
جیسے دُھواں چراغ کو جاتا ہے چھوڑ کر
ایسے ترے حِصار سے مَیں بھی نِکل گیا

35
ہر طرف سسکیاں ہیں، ماتم ہے
پھر بھی مسرور زندگی ہے تری

1
56
جیسے دھواں بکھیر دے کوئی چراغ کا
ایسے ہوا ہوں گم کہیں دنیا کی بھیڑ میں

37
رات باقی تھی گھر سے نِکلے تھے
رات باقی ہے گھر نہیں پہنچے

40
ہرخُوشی مُسکرا کے آتی ہے
غم کبھی پُوچھ کر نہیں آتے

45
اُس کو دیکھوں کہ چاند کو دیکھوں
روشنی ایک سی ہے دونوں طرف

0
37
کھینچ قوسِ قزح مرے مالِک
پِھر زمیں پر بپھر گیا پانی

39
تُجھ سے مِل کر یہ پتہ چلتا ہے
لمحے صدیوں سے بڑے ہوتے ہیں

0
42
آسماں کو لگام دے مولا
بارشوں سے بچا زمین کے لوگ

0
1
55
آسماں کھول دے خُداوندا
رحم تیرا زمین پر برسے

48
زندگی جس کو پیار کرتی ہے
موت کے منہ سے کھینچ لاتی ہے

0
46
مُجھ کو مرکز میں میرے رہنے دو
اپنے محور میں گُھومنا ہے مُجھے

0
37
تُم بہو دریا کے پانی کی طرح
میَں رہوں اس کا کِنارا عمر بھر

0
44
تیرے لوگوں کی خیر ہو یارب
موت رقصاں ہے بارشوں کے ساتھ

0
60
درد و غم جب نڈھال کرتے ہیں
ماں کی تصویر دیکھ لیتا ہوں

0
40
سر پہ سایہ نہیں رہا کوئی
عُمر بھر دُھوپ کی مُسافت ہے

0
39
تُو نہیں تھا مرے مقدر میں
میرا تقدیر پر بھروسہ تھا

0
42
ہونٹ خاموش ہوتے ہیں لیکن
اس کی آنکھیں کلام کرتی ہیں

71
اُس نے آنکھیں جُھکا لیں ہیں اپنی
لوگ آنکھوں سے دل میں جھانکتے ہیں

51
ظرف دیتا ہے شخصیت کی خبر
لوگ سب ایک سے نہیں ہوتے

0
36
آسماں کی نظر میں سب کُچھ ہے
یہ زمیں کُچھ چُھپا نہیں سکتی

37
جِس کو چاہے نہ عُمر بھر کوئی
نامُکمّل شُمار ہوتا ہے

44
آپ سے گفتگو کریں کیسے
آپ کب دوسروں کو سنتے ہیں

53
دیر تک آسماں کو تکتا ہوں
ایک دِن تو جواب آئے گا

1
46
روشنی کی تلاش میں مانؔی
شہر کا شہر گھر سے نِکلا ہے

0
67
تُجھ سے مِل کر یہ پتہ چلتا ہے
عُمر لمحے کی بڑی ہوتی ہے

0
48
اِس سے پہلے کہ دیر ہو جائے
آؤ مِل کر دِیئے جلاتے ہیں

0
43
تمام شہر کی آنکھوں میں تم کھٹکتے ہو
تُمہیں خدا نے غضب کا جمال بخشا ہے

0
41
زندگی کا وہ لُطف کیا جانے
جس کو چاہے نہ عمر بھر کوئی

0
28
عِشق نے بخشا مُجھے اِتنا عروج
مَیں زمیں سے آسماں تک آ گیا

0
37
اشک جاری ہیں ایک مُدّت سے
بوجھ ہلکا نہ ہو سکا دِل کا

0
41
ڈھونڈ لاؤں گا علاجِِ تیرگی
عظمتِ اِنسان افضل ہے مجھے

0
41
جن کا چہرہ سوال ہوتا ہے
کام لیتے نہیں زباں سے وہ

0
56
ایک دن چھو کے اُس کو دیکھوں گا
موم ہے یا وہ کوئی پتھر ہے

0
62
مُشکل بڑا تھا ہجر کے رستوں کو ناپنا
دریا نے خُودکشی کی سمندر میں جا گِرا

0
42
دل چّھپاتا ہے حالتیں اپنی
بول دیتی ہیں سارا سچ آنکھیں

0
43
سب سے مضبوط رشتہ بھی مانی
توڑ دیتی ہے موت آخر میں

0
33
تمہارے خواب مجھے سوچنے نہیں دیتے
تمہارے خوابوں سے نکلوں تو پھر میں کچھ سوچوں

0
40
خواب آنکھوں کے ٹوٹ جائیں تو
زخم لہجے پہ گہرے آتے ہیں

0
38
اُس کے تیکھے نقوش اے مانی
اُس کو کرتے ہیں منفرد سب سے

0
46
جسم و جاں چاہتوں میں لپٹے ہیں
کھول دیتی ہیں بھید سب آنکھیں

0
39
چُھوٹ جاتی ہیں وقت کی نبضیں
جب وہ آنکھوں سے مُسکراتا ہے

0
45
جب بھی درد کہانی لِکھنا
بوجھ سے چُور جوانی لکِھنا
اُس کے چہرے کی شادابی
میری آنکھ کا پانی لکِھنا
جب بھی لکِھنا مُجھ کو ساجن
بس اپنی دیوانی لکِھنا

0
44
سال تو ایک جیسے ہوتے ہیں
بس حوادِث بدلتے رہتے ہیں

0
68
اِتنے حِصّے کِئے گئے میرے
میرے حِصّے میں مَیں نہیں آیا

0
64
خُود پہ ہے اعتبار کر لوں گا
غم کے دریا کو پار کر لوں گا
جتنا عرصہ ہے زندگانی کا
مَیں ترا اِنتظار کر لوں گا
تُم مُجھے روکنے تو آؤ گے
مَیں سفر اختیار کر لوں گا

0
48
میں لے کے آیا ہوں اک کہانی
کہانی زندہ رہے گی ہر دم
کہانی شہباز کی ہے یہ تو
کہ مثلِ پولوس چن لیا تھا
مسیح نے اس کو
مسیح میں پا کے نئی حیاتی

0
52
مبارک ہو یہ دِن تم کو
جو پھر ہے لوٹ کر آیا
محبت کا یہ دِن جس کو
مناتا ہے جہاں سارا
زمین و آسماں سارا
ہمیشہ یاد رکھنا تم

0
38
جنم دن کی مبارک ہو
مری جاناں مری جاناں
خوشی کا دن ہے پھر آیا
مبارک دل سے ہو تم کو
محبت سے بھرا یہ دن
دعا ہونٹوں پہ ہے میرے

0
58
یار مجھ کو گِلہ نہیں کوئی
زخمِ دل ہی ِسلا نہیں کوئی
سب سمندر کھنگال کر دیکھے
تجھ سا موتی مِلا نہیں کوئی
موسمِ گل چلا گیا آ کر
پھول لیکن کِھلا نہیں کوئی

0
40
سب سمندر کھنگال کر دیکھے
تُجھ سا موتی مِلا نہیں کوئی

0
55
مُشکل بڑا تھا ہجر کے رستوں کو ناپنا
دریا نے خُودکُشی کی سمندر میں جا گِرا

0
58
کِتنے پتھّر تراش ڈالے ہیں
ایک بُت کو نکالنے کے لئے

0
68
جِن کی آنکھوں کا خواب ٹُوٹا ہو
اُن کے لہجے کا مت بُرا مانو

0
79
کون آیا ہے آج ساحل پر
موج در موج رقص جاری ہے

0
104