پُھول ہیں جس کے ہاتھوں میں
خُوشبو اُس کی باتوں میں
دِن کو بے کل رہتا ہے
اور بے چین وہ راتوں میں
کر ہی ڈالی دِل کی بات
مًیں نے باتوں باتوں میں
اُس کی آمد آمد ہے
دیپ جلے ہیں طاقوں میں
اُس نے ہاتھ پہ رکھا ہاتھ
پُھول کِھلے ہیں سانسوں میں
آؤ اک ہو جائیں ہم
رکھا ہے کیا ذاتوں میں
میرا نام تراشا ہے
اُس نے اپنے ہاتھوں میں
مانی گہرے سپنے ہیں
ساگر جیسی آنکھوں میں

182