ہم نے یہ بات آزمائی ہے
بے وفائی تو بے وفائی ہے
جھوٹ سچ کا گماں نہیں ہوتا
اس کی باتوں میں کیا صفائی ہے
دِل دھڑکنا ہی جیسے بّھول گیا
اُس نے ایسی خبر سنائی ہے
اُس کو کھویا تو دشت ہاتھ آیا
یہ مرے عشق کی کمائی ہے
اپنے گھر میں ہی مارا جاؤں گا
میرا دُشمن ہی میرا بھائی ہے
مَیں مّسافِر تھا تیرگی کا میاں
تُونے یہ رہ مّجھے دِکھائی ہے
اُس نے دیکھا ہے مّسکرا کے مّجھے
زندگی پِھر سے مّسکرائی ہے
اب تو ان شاعروں کی محفِل میں
شاعری قافیہ پیمائی ہے
جان ڈالی ہے مَیں نے غزلوں میں
شاعری میری رنگ لائی ہے
وہ ہمارا نہ ہو سکا مانی
جس کی خاطر یہ جاں گنوائی ہے

0
42