کب کسی کو مِلی بے وفا سے وفا
پھر بھی اچھی لگی بے وفا کی ادا
دل میں الفت کا جو بیج بویا گیا
دیکھ ساون میں وہ پُھول بن کر کِھلا
روشنی سے اسے بھی بڑا پیار ہے
اِس لئے رکھ دیا ہے جلا کر دیا
اُس کے ہونٹوں پہ بھی کوئی شِکوہ نہیں
میرے دل میں بھی کوئی نہیں ہے گلہ
اپنی فطرت میں ہے چاشنی پیار کی
پھر بھی پایا نہیں چاہتوں کا صلہ
سننے والا تو اُن کی بھی سنتا ہے دوست
لوگ پتھر کو بھی مانتے ہیں خدا
کام بگڑے مرے سارے بننے لگے
کام آئی ہے میرے کسی کی دعا
قیس کا جاں نشیں بننے والا ہوں میں
مجھ کو آوارگی دے رہی صدا
مانی پاتال سے میَں نے آواز دی
وہ اُتر کر فلک سے گلے آ مِلا

0
45