غزل
میری یادیں اُجالتا ہے کوئی
اب بھی مُجھ کو پُکارتا ہے کوئی
میری سوچوں پہ اُس کا پہرہ ہے
شعر میرے نِکھارتا ہے کوئی
جیسے جلتے دئے منڈیروں پر
عُمر اپنی گزارتا ہے کوئی
کھینچ لاتا ہے روشنی میں مُجھے
یوں مقدر اجالتا ہے کوئی
ہم سے مِلنے کے بعد سمجھو گے
جیت کر کیسے ہارتا ہے کوئی
ہے کوئی جو نظر نہیں آتا
ساری دُنیا کو پالتا ہے کوئی
کر کے خود کو تباہ اے مانی
تیری ہستی سنوارتا ہے کوئی

0
53