بُجھتی آنکھوں کو خواب دیتی ہیں
مُجھ کو شامیں عذاب دیتی ہیں
پڑھنے والے کو بھانپ کر آنکھیں
راز اپنے جناب دیتی ہیں
جب مرا دل سوال کرتا ہے
اس کی آنکھیں جواب دیتی ہیں
اے محبت تیری تباہی کا
کِتنی صدیاں حساب دیتی ہیں
شام ڈھلتے ہی دل نشیں چڑیاں
میری آنکھوں کو خواب دیتی ہیں
وہ ہی پیکر حیا کا بنتی ہیں
جن کو مائیں حجاب دیتی ہیں
شعر مُجھ پر اُترتے ہیں مانی
دُوریاں جب عذاب دیتی ہیں

0
82