فلک پر چاند تارے جاگتے ہیں
کہ شب بھر غم کے مارے جاگتے ہیں
ابھی تک دل تُجھے بُھولا نہیں ہے
ابھی تک زخم سارے جاگتے ہیں
وہ جب سے شہر میں آیا ہوا ہے
جِدھر دیکھوں نظارے جاگتے ہیں
سمندر میں رہے گی ناؤ تب تک
ترے جب تک اِشارے جاگتے ہیں
ابھی تک تو نہیں بدلا ہے کچھ بھی
ابھی تک تو خسارے جاگتے ہیں
کہانی تب تلک چلتی رہے گی
ترے جب تک سہارے جاگتے ہیں
چراغوں تک ہوا پہنچے گی کیسے
یہ جب تک بخت ہارے جاگتے ہیں
دلِ مُضطر بہت روتا ہے مانؔی
کہ جب سپنے تمہارے جاگتے ہیں

0
64