ہجر سے اس لئے نہیں ڈرتے
دید کی آرزو نہیں کرتے
اس قدر دوریاں نہیں اچھی
تم مرے ساتھ کیوں نہیں چلتے
لوگ ایسے بھی ہم نے دیکھے ہیں
جو کہ مر کر کبھی نہیں مرتے
روشنی کی اشد ضرورت ہے
تیرگی کھا گئی دیے جلتے
تتلیاں سب اداس پھرتی ہیں
رنگ پھولوں میں کیوں نہیں ڈھلتے
زندگی کا چراغ بجھتا ہے
چاند تارے کبھی نہیں بُجھتے
سمجھ مانی وہ مر چکے ہیں یہاں
آنکھ میں خواب جو نہیں بھرتے

0
41