دردِ ہِجراں تُجھے چُھپاتے ہوئے
اشک بہتے ہیں مُسکراتے ہوئے
ٹُوٹ سکتی ہے ڈور سانسوں کی
سانس کے اِس طرح سے آتے ہوئے
اپنے حِصّے کا تُم جلاؤ دِیا
کچھ نہ سوچو دِیا جلاتے ہوئے
مَیں گُزر جاؤں اِس زمانے سے
تجھ سے عہدِ وفا نبھاتے ہوۓ
اُس کے کُوچے میں گھر بناؤں گا
اُس کو دیکھوں گا آتے جاتے ہوئے
آبلے پڑ گئے ہیں پاؤں میں
چل رہے ہو جو لڑکھڑاتے ہوئے
تم کو شائد پری نظر آئے
جھیل پر جاؤ گنگناتے ہوئے
اس کا لہجہ وفا میں ڈُوبا تھا
مُجھ کو میری غزل سُناتے ہوۓ
دِل میں مانی مَیں سوچتا ہوں اُسے
اِک نیا قافیہ بناتے ہوئے

0
64