وفا کے عِوض بے وفائی نہ دینا
بس اِک اِلتجا ہے جُدائی نہ دینا
مُحبّت ہے تجھ سے کہ دیوانگی ہے
سِوا تیرے کچھ بھی دِکھائی نہ دینا
خُدا تُجھ سے اب میں یہی مانگتا ہوں
کہ دُشمن کو مجھ تک رسائی نہ دینا
مرے دل کی ہلچل مُجھے کہہ رہی ہے
سِتمگر کے در پر دُہائی نہ دینا
مَیں درویش بندہ ہوں میرے خدایا
مُجھے خوئے بس خُود نُمائی نہ دینا
اداسی کہ ہم اس مکاں پر کھڑے ہیں
کہ آواز اپنی سنائی نہ دینا
جو سارے زمانے سے بیگانہ کر دے
تُو مانی کو وہ آشنائی نہ دینا

0
41