اُلجھا ہوا ہوں مَیں بھی خیالوں کے درمیاں
آہوں کے درمیاں کبھی نالوں کے درمیاں
آنکھوں میں خواب رکھ کے یہ سوچے ہیں بیٹیاں
چاندی چمکنے لگ گئی بالوں کے درمیاں
پیچھے پلٹ کے دیکھا تو حیران رہ گیا
کتنا بدل گیا ہوں میں سالوں کی درمیاں
اُس نے یہ اپنے ہونے کا علان کر دیا
ماہ و نجوم باندھ کے سالوں کے درمیاں
تم کو کسی کے دل کی اداسی کی کیا خبر
رہتے ہو تم چاہنے والوں کے درمیاں
دشمن کے سارے وار ہی خالی چلے گئے
میں نے بھی چال وہ چلی چالوں کے درمیاں
مانی مرے نصیب میں یہ لکھ گیا وہ شخص
پتھر بھی ہوں گے پاؤں کے چھالوں کے درمیاں

0
37