درد کے قصے سُناتی ہے ہوا
اُس کو چُھو کر جب بھی آتی ہے ہوا
رقص کرتے ہیں اندھیرے چار سُو
جب دیا کوئی بُجھاتی ہے ہوا
مَیں نے دیکھا ہے یہ منظر دوستو
پانیوں پر جھلملاتی ہے ہوا
چھیڑ دیتی ہے یہ دل کے تار سب
پیار کے نغمے سُناتی ہے ہوا
بات وہ کاغذ پہ کرتا ہوں رقم
کان میں جو کہہ کے جاتی ہے ہوا
پاس آ کر خوب روتی ہے مگر
دُور جا کر مُسکراتی ہے ہوا
گیت گاتی ہے وفا کے ہر طرف
بستی بستی ہو کے آتی ہے ہوا
حالِ دل مانی سُناتی ہے اُسے
رازداں جِس کو بناتی ہے ہوا

0
70