مجھے وہ نئی اک ادا دے گیا
عجب زندگی کا مزا دے گیا
سفارت اجالوں کی سونپی مجھے
چراغوں کو میرا پتہ دے گیا
کبھی مثلِ خُوشبو معطر کیا
کبھی سرد رُت کی ہوا دے گیا
اُسی کی مدد سے کٹا ہے سفر
جو وقتِ سفر وہ دُعا دے گیا
بس اک مُسکراتی نظر ڈال کر
وہ کیا رنج و غم کی بلا دے گیا
کہ راتوں کو اٹھ اُٹھ کے روتا ہوں مَیں
وہ جانے یہ کیسی سزا دے گیا
ہرا دل کے زخموں کو ایسے کیا
چراغوں کو جیسے ہوا دے گیا
بہت ناز تھا اِس پہ مانی مگر
مرا دل بھی مجھ کو دغا دے گیا

0
55