مجھے وہ نئی اک ادا دے گیا |
عجب زندگی کا مزا دے گیا |
سفارت اجالوں کی سونپی مجھے |
چراغوں کو میرا پتہ دے گیا |
کبھی مثلِ خُوشبو معطر کیا |
کبھی سرد رُت کی ہوا دے گیا |
اُسی کی مدد سے کٹا ہے سفر |
جو وقتِ سفر وہ دُعا دے گیا |
بس اک مُسکراتی نظر ڈال کر |
وہ کیا رنج و غم کی بلا دے گیا |
کہ راتوں کو اٹھ اُٹھ کے روتا ہوں مَیں |
وہ جانے یہ کیسی سزا دے گیا |
ہرا دل کے زخموں کو ایسے کیا |
چراغوں کو جیسے ہوا دے گیا |
بہت ناز تھا اِس پہ مانی مگر |
مرا دل بھی مجھ کو دغا دے گیا |
معلومات