خامشی بھی سُنائی دیتی ہے
جب وہ صُورت دِکھائی دیتی ہے
زندگی بھی تو اک قفس میں ہے
موت آ کر رہائی دیتی ہے
چاک پر مَیں دیے بناتا ہوں
روشنی رہنمائی دیتی ہے
ہے یہ انجام اس محبت کا
زخم ہی دلربائی دیتی ہے
آپ خالق زمیں پہ آتا ہے
جب بھی خلقت دُہائی دیتی ہے
ہر خوشی غم کا روک کر رستہ
چشمِ تر کو کمائی دیتی ہے
اِس قدر شور ہے زمانے میں
کِس کی دھڑکن سُنائی دیتی ہے
جُھوٹ کہتی ہے یہ زباں مانی
آنکھ لیکن صفائی دیتی ہے

0
61