لوٹ کر آئے نہیں شہر سے جانے والے
جانے کس دیس میں جاتے ہیں نہ آنے والے
ہم نے ہر بار وفاؤں کی سزا پائی ہے
ہم نے دھوکے یہاں کھائے ہیں نہ کھانے والے
ہم نے اِس کارِ محبت میں قدم رکھا تھا
ہم وہ عاشق ہیں میاں دشت بسانے والے
اُس کو دیکھا تو مری آنکھ سے چھلکے آنسو
کُچھ تو ہوتے ہی نہیں زخم چُھپانے والے
اِن درختوں پہ بھی آسیب کا سایہ ہے کوئی
سانپ بیٹھے ہیں پرندوں کو ستانے والے
اب کہ دشمن کے لئے مَیں نے دعا مانگی ہے
دوست مِلتے ہیں مجھے خون بہانے والے
میرے خوابوں کی یوں تعمیر کہاں ممکن ہے
دل میں رہتے ہیں مری نیند چُرانے والے
اُن کی یادوں سے نِکلتا ہی نہیں دِل مانی
مر کے بھی ساتھ نبھاتے ہیں نبھانے والے

0
2
140
بہت اچھے

بہت شکریہ ارشد صاحب

0