یوں تو چھوٹی سی زندگانی ہے
رنج و غم سے بھری کہانی ہے
اِس میں کردار ہیں بہت یارو
پل دو پل کی مگر جوانی ہے
آنکھ سے پوچھتا ہے دل میرا
تیرے کُوزے میں کتنا پانی ہے
آج کا دِن بھی مہرباں ہے بہت
آج کی شام بھی سہانی ہے
یہ رعونت کہاں سے آئی ہے
جیسے تو جنسِ آسمانی ہے
تیری آنکھوں میں ایک نشہ ہے
تیرے لہجے میں اک روانی ہے
کُچھ بھی مانی نیا نہیں اُس میں
اُس کی جنت بہت پرانی ہے

0
45