اب بہکنے سے نہ روکے کوئی
بس تڑپنے سے نہ روکے کوئی
ہم اُڑانوں پہ یقیں رکھتے ہیں
ہم کو اڑنے سے نہ روکے کوئی
ہم نے مانگی تھی دعا بارش کی
اب برسنے سے نہ روکے کوئی
ہم مُسافر ہیں ہمیں چلنا ہے
ہم کو چلنے سے نہ روکے کوئی
ہم ستاروں کی طرح چمکے ہیں
اب چمکنے سے نہ روکے کوئی
حسرتِ دید کہہ رہی ہے یہی
سانس چلنے سے نہ روکے کوئی
یہ تو زخموں کی آبیاری ہے
دل دہکنے سے نہ روکے کوئی
رنگ پھیلا ہے، مہکتے گل ہیں
گل مہکنے سے نہ روکے کوئی
دل دھڑکتا ہے وفا میں مانی
اور دھڑکنے سے نہ روکے کوئی

0
68