اب بہکنے سے نہ روکے کوئی |
بس تڑپنے سے نہ روکے کوئی |
ہم اُڑانوں پہ یقیں رکھتے ہیں |
ہم کو اڑنے سے نہ روکے کوئی |
ہم نے مانگی تھی دعا بارش کی |
اب برسنے سے نہ روکے کوئی |
ہم مُسافر ہیں ہمیں چلنا ہے |
ہم کو چلنے سے نہ روکے کوئی |
ہم ستاروں کی طرح چمکے ہیں |
اب چمکنے سے نہ روکے کوئی |
حسرتِ دید کہہ رہی ہے یہی |
سانس چلنے سے نہ روکے کوئی |
یہ تو زخموں کی آبیاری ہے |
دل دہکنے سے نہ روکے کوئی |
رنگ پھیلا ہے، مہکتے گل ہیں |
گل مہکنے سے نہ روکے کوئی |
دل دھڑکتا ہے وفا میں مانی |
اور دھڑکنے سے نہ روکے کوئی |
معلومات