خواب آنکھوں میں جو پروتے ہیں
منزلوں کے قریب ہوتے ہیں
بات نفرت کی جو نہیں کرتے
امن کے وہ نقیب ہوتے ہیں
عُمر گزری ہے دشت میں اُن کی
چین کی نیند اب جو سوتے ہیں
کل وہی کاٹنا پڑے گا ہمیں
اپنی دُنیا میں ہم جو بوتے ہیں
جِن کی تعبیر ہی نہیں ہوتی
خواب ایسے بھی دِل میں ہوتے ہیں
خون دِل سے ٹپکنے لگتا ہے
آنکھ جب بھی کبھی بھگوتے ہیں
میں ہنسوں بھی تو کس طرح مانی
میری بستی کے لوگ روتے ہیں

0
66