دِل فِدا ہو گیا نَظاروں پر
حُسن اُترا ہے کیا بہاروں پر
ہم مُسافر ہیں ساحلوں کے یہاں
ہم کو ڈھونڈا کرو کِناروں پر
اُس بلندی پہ آ گئے ہیں ہم
دسترس ہم کو ہے ستاروں پر
کون ہے جو مُجھے پُکارتا ہے
خوف ہی خوف ہے چناروں پر
وقت نے چال ہی چلی ایسی
درد مِلتے ہیں رہگزاروں پر
لفظ چُبھتے ہیں تیرے کانوں میں
دِل مرا رکھ دیا ہے آروں پر
بُھول بیٹھے ہیں مُسکرانا بھی
رحم کر اپنے غم کے ماروں پر
مانؔی اپنے مزاج کا مالِک
کیوں چلے گا ترے اشاروں پر

0
63