یوں سمجھو اوقات کی خاطر
ہم بدلے حالات کی خاطر
پتّھر دل بھی پگھلے دیکھے
آنکھوں میں برسات کی خاطر
شام کو میلہ لگتا ہے اب
میری تنہا ذات کی خاطر
ہم نے ساری دُنیا چھوڑی
کومل سے اُس ہاتھ کی خاطر
آج کی شب ہے بے حد بھاری
رہ جاؤ اِس رات کی خاطر
ہم سے پیار کی باتیں کر لو
جاناں بس اک بات کی خاطر
مانی عشق میں کیا مجبوری
جو بھی کیا جذبات کی خاطر

61