پھیلا تھا جو سُخن کے سوال و جواب میں |
وہ شخص کُھل رہا ہے ہماری کِتاب میں |
بے رنگ موسموں کو بھی کردے گی مُشکبار |
خُوشبو جو پل رہی ہے مہکتے گلاب میں |
موجوں نے جب سے سحر زدہ کر دیا مُجھے |
تب سے کوئی پکار رہا ہے چناب میں |
ہم نے کتابِ زیست کو کھولا ہی تھا کہ بس |
اِک بے وفا کا نام تھا پہلے ہی باب میں۔ |
دِل خوش ہوا تھا آبِ رواں دیکھ کر جسے |
دھوکا چُھپا تھا دشت کے اندھے سراب میں |
وہ خواب آج تک بھی معمہ بنا رہا |
کیا خواب تھا ادھورا سا میرے ہی خواب میں |
وہ پارسا بھی کوئی فرشتہ تو ہے نہیں |
خامی نکل ہی آئے گی اک دن جناب میں |
تھمتے نہیں تھے یار کی آنکھوں سے بہتے اشک |
مانؔی کو اُس نے دیکھا تھا جب اِضطراب میں |
معلومات