دَورِ ظلمت دیس سے جانے والا ہے
امن پرندہ پر پھیلانے والا ہے
بن جائے گا زینت مفلس ہونٹوں کی
وقت نیا اب گیت وہ گانے والا ہے
یہ بتلا دے یار کتابِ زیست میں کیا
حادثہ کوئی دل دہلانے والا ہے
جس موسم میں پھول کھلے تھے الفت کے
اب وہ موسم دِل تڑپانے والا ہے
کب تک درد کی دھوپ ہمیں جھلسائے گی
ابرِ رحمت بس اب چھانے والا ہے
برسوں سے جو بند پڑا ہے زنداں میں
اب وہ ہر دیوار گرانے والا ہے
لوٹ آئے گا مانی آخر اک دن وہ
مجھ کو چھوڑ کے دُور جو جانے والا ہے

0
50