دِل سے تمہاری یاد کو مِٹنے نہیں دیا
ہم نے کسی بھی زخم کو بھرنے نہیں دیا
چھوڑا نہیں ہے ضبط کا دامن ابھی تلک
آنکھوں سے ایک اشک بھی گِرنے نہیں دیا
ماں کی دعائیں ساتھ ہمیشہ رہیں مرے
مجھ کو کبھی زمین پہ گرنے نہیں دیا
ایسا نہ ہو کہ یونہی مُجھے کھو نہ دے کہیں
اِس ڈر سے مُجھ کو خُود سے بھی مِلنے نہیں دیا
یوں تو اُگائے عُمر بھر اُس نے گُلِ فراق
چاہت کا ایک پھول بھی کِھلنے نہیں دیا
اُس کا تھا خواب مُجھ کو بُلندی پہ دیکھنا
سو اُس نے مُجھ کو خاک میں مِلنے نہیں دیا
اس پر نہ کھل سکیں مری ساری حقیقتیں
دِل ٹُوٹ بھی گیا تو بکھرنے نہیں دیا
موجوں میں تیرتی ہوئی دہشت کے خوف سے
دریا میں اُس نے مانی اترنے نہیں دیا

0
43