میرے دِل کے قریب تھا پہلے
کوئی میرا حبیب تھا پہلے
اپنے لفظوں سے اب وہ ڈرتا ہے
جو بظاہر ادیب تھا پہلے
دوستوں میں شُمار ہوتا ہے
جو کہ میرا رقیب تھا پہلے
اب وہ کہتا ہے جنگ ہو جائے
امن کا جو نقیب تھا پہلے
اُس کے ہاتھوں سے زخم رِستے ہیں
وہ جو میرا طبیب تھا پہلے
تیرے آنے پہ پُھول بِکنے لگے
شہر سارا غریب تھا پہلے
تیری قسمت بنا ہوا ہے جو
وہ تو میرا نصیب تھا پہلے
میرا مرنا حیات بن گیا ہے
جب کہ جینا صلیب تھا پہلے
اب وہ لگتا ہے عام سا مانی
آدمی جو عجیب تھا پہلے

0
64