ٹُوٹ کر اس طرح سے پیار نہ کر
جانے والے کا انتظار نہ کر
پُھول جیسا ہے دوست یہ جیون
زندگانی کو مِثلِ خار نہ کر
لوٹ بھی آ وفا کے رستے پر
موسمِ گُل کو بے قرار نہ کر
دِل ہے میرا ترے نشانے پر
اپنی نظروں کے مُجھ پہ وار نہ کر
میں ترا باضمیر دشمن ہوں
دوستوں میں مُجھے شمار نہ کر
وقت ہاتھوں سے جب گیا ہے نِکل
رنج اُس پر یوں بار بار نہ کر
حوصلہ ہے تو بام پر آ جا
چُھپ کے محبوب مجھ سے پیار نہ کر
جِن کی فطرت میں بے وفائی ہے
ایسے لوگوں پہ جاں نثار نہ کر
تیری نسبت خزاں سے ہے مانی
تُو تو پھولوں کا کاروبار نہ کر

0
67