مُجھے اِس غم کے دریا کا کِنارا ہی نہیںں مِلتا
کہ ڈُوبا اس طرح سے ہوں سہارا ہی نہیں ملتا
مُجھے اب آسمانوں کو بھی شاید کھوجنا ہوگا
جو اُس کی طرح سے چمکے سِتارا ہی نہیں مِلتا
مرے شعروں کو سمجھیں گے جہاں والے بھلا کیسے
یہاں تو دل لگی میں کوئی ہارا ہی نہیں ملتا
مُجھے معلوم ہے دل کر رہا ہے کام سارے یہ
کہوں کیسے محبت کا اِدارہ ہی نہیں مِلتا
مرا زادِ سفر مت باندھنا میرے رفیقو تُم
مُجھے اُس سمت سے جب تک اِشارہ ہی نہیں ملتا
ترے کُوچے کے مَیں اِس واسطے چکر لگاتا ہوں
مری آنکھوں کو تُجھ سا کوئی پیارا ہی نہیں مِلتا
اُسے سچّی مُحبّت ہو نہیں سکتی کبھی مانی
جِسے کارِ مُحبّت میں خسارہ ہی نہیں ملتا

48