جب نِکالے گئے کہانی سے |
اشک بہنے لگے روانی سے |
ایک ہی بوند پیاس ہو جس کی |
کیا غرض اس کو بہتے پانی سے |
تیری محفل میں روشنی ہے مگر |
رنگ تھا دوستی پرانی سے |
سارے کِردار ایک جیسے تھے |
میں نکل آیا ہوں کہانی سے |
کھینچ لائی ہے جو بڑھاپے تک |
مجھ کو شکوہ ہے اُس جوانی سے |
سُننے والوں پہ جو بھی گزرے اب |
لفظ باندھے ہوئے ہیں معانی سے |
میرے کمرے میں پھیلی ہے خوشبو |
اُس کی بھیجی ہوئی نِشانی سے |
دشت مانی صدائیں دیتے ہیں |
جب سے مانگی ہے پیاس پانی سے |
معلومات