غم کے مارے جو مّسکرائے ہیں
تیری چاہت نے گُل کِھلائے ہیں
جو خوشی بھی مِلی ادھوری تھی
ہم نے ایسے نصیب پائے ہیں
تم زمانے سے ڈر گئے صاحب
ہم نے اپنوں سے زخم کھائے ہیں
دُکھ سے رشتہ بہت پرانا ہے
غمِ ہجراں کے ہم پہ سائے ہیں
چُومتے ہیں اب اپنے ہاتھوں کو
تیرے ہاتھوں کو چُھو کے آئے ہیں
کیسی حالت بنائی ہے تُم نے
کون سے غم گلے لگائے ہیں ؟
چشمِ تر کو خبر نہیں مانی
زخم دِل کے کہاں چھپائے ہیں

0
106