آندھیوں میں دئے جلائیں گے
دشت میں راستہ بنائیں گے
بے نشاں منزلوں کے راہی ہیں
کیا مُسافر یہ تھک نہ جائیں گے ؟
ہم کو دشتِ سخن میں رہنے دو
پیار کے پُھول ہم کھلائیں گے
چھوڑ جاؤ گے ساتھ تُم میرا
لوگ جب انگلیاں اٹھائیں گے
تیری آنکھوں میں دیکھنے والے
صرف تیرے ہی گیت گائیں گے
رونے والوں نے شرط رکھی ہے
تیرے آنے پہ مسکرائیں گے
ڈر تو پھر بارشوں کا رہنا ہے
ریت کے گھر اگر بنائیں گے
وہ زمانے نہیں رہے مانؔی
یہ زمانے بھی بِیت جائیں گے

0
52