نقش سارے مِٹا کے آیا ہوں
اُس کی یادیں بُھلا کے آیا ہوں
اِک سمندر ہے آنکھ میں باقی
ایک دریا بہا کے آیا ہوں
عین ممکن ہے وقت کروٹ لے
ایک دنیا جگا کے آیا ہوں
پیٹ بھرتا نہیں سمندر کا
کِتنے دریا گِرا کے آیا ہوں
ہائے اک بے وفا کی چاہت میں
کِتنے لمحے گنوا کے آیا ہوں
دشتِ اُلفت میں عمر کاٹی ہے
اپنی ہستی مِٹا کے آیا ہوں
تیرے مقتل سے ڈر نہیں لگتا
دیکھ میں مُسکرا کے آیا ہوں
سُن کے آہ و فغاں پرندوں کی
مانی آنسو بہا کے آیا ہوں

0
46