ہمیں تم بھول جاؤ گے مگر ہم جیسے بنجارے، تری یادوں کو اس دل میں سدا آباد رکھیں گے
وہ محفل دوستوں کی جو نہ بھولے گی کبھی ہم کو، اسی کی یاد سے اس دل کو ہر پل شاد رکھیں گے
جو نسلِ نو بھی آئے گی تو ہم کو سنگ پائے گی، تری نسبت سے ہم اس ربط کی بنیاد رکھیں گے
بکھر جائیں گے دنیا میں تو بھی مربوط رہ کر ہم، یہ اپنی یاریاں ناقابلِ افتاد رکھیں گے
یہ وعدہ تھا یہ وعدہ ہے یہی وعدہ کریں گے ہم، کہیں بھی ہونگے لیکن باہمی امداد رکھیں گے
سکھایا تُو نے ہے ہم کو، سمجھنا رب کی قدرت کو، ترے قدموں میں ہم اپنی ہر اِک ایجاد رکھیں گے
دیارِ غیر میں رہ کر تجھے مِلنے کو ترسیں گے، ترے باسی گو جب بھی محفل و میلاد رکھیں گے
یہ اپنی مادرِ علمی، اسے مِلنا ہمارا حق، نہیں یہ کوئی چھینے اب، یہی فریاد رکھیں گے

0
20