ہم نے خود کوکبھی ماضی سے نکالا بھی نہیں
اور کوئی خواب حقیقت میں تو ڈھالا بھی نہیں
اب کے گلتی ہی نہیں دال تو پھر کیا کیجئے
دھل چکے ایسے کہ اب دال میں کالا بھی نہیں
تیری چایت نے لگائے ہیں مسلسل چیرے
ہم نے زخموں کو کبھی شوق سے پالا بھی نہیں
ہمسفر کیسے تجھے مانے گی دنیا میرا
ترے پاؤں تلے یکسر کوئی چھالا بھی نہیں
دیدنی کیا ہے؟ مصدق یہ بتا دے مجھ کو
ہر جا ظلمت ہے، کہیں کوئی اجالا بھی نہیں

61