جب سے پیروں میں ہیں ہمرے یہ چھالے نکلے
رہبری کیا، ہم قافلے سے بھی نکالے نکلے
مجھ آشفتہ کے پامال کیے جانے کو
خشت و سنگ کیا، یاں ہاتھوں میں بھالے نکلے
ہم تو سمجھے تھے، ہم ہی اندھے ہیں جہاں میں
پر ہم سے بڑھ کر، ہمیں چاہنے والے نکلے
خشک لبوں پہ فقط جو ہم نے زباں پھیری تو
چار اطراف سے سب ہی لے کے پیالے نکلے
پیر و مرشد انہیں مانا تھا اسی دنیا نے
اب ان سب کے ہی کرتوت ہیں کالے نکلے
روشنی درد بہت دیتی ہے اب آنکھوں کو
جب سے جیون سے ہیں میرے اجالے نکلے
اپنے ہونٹوں کو مصدقؔ تُو مقفّل کر لے
جب بھی بولا، ترے منہ سے ہیں نالے نکلے

78