جی نہ بھرتا جب تھے میلا دیکھتے |
بار ہا ایک ایک ٹھیلا دیکھتے |
بچپنا تھا بانکپن کی موج میں |
لوگ تھے گو اُس کا ریلا دیکھتے |
ہاں مگر وہ ایک ہستی تھی جسے |
بھول کر ہر اِک جھمیلا دیکھتے |
اپنے ہونے کا گماں ہوتا تھا بس |
اس کو جب بھی ہم اکیلا دیکھتے |
اپنا ہر لقمہ ہے گو بِس سے بھرا |
ایسے میں ہم کیا بِسَیلا دیکھتے |
بھائی بن کر وہ مِلا برسوں کے بعد |
*کیا سگا تو کیا سُتیلا دیکھتے* |
ناز کیا ہو اب مصدقؔ قوم پر |
ہر طرف مغرب کا چیلا دیکھتے |
معلومات