اب کے مل بیٹھ کے کہنے کو کہانی نہ رہی
اب ہے سب ہیچ، تخیّل کی روانی نہ رہی
مجھ سے کہتا ہے مِرا جسم جو دوڑوں میں کبھی
ہوں مجسم مگر اب مجھ میں جوانی نہ رہی
ہم کو تھی آگہی مطلوب پر اتنی بھی نہیں
اب ہیں خاموش کہ وہ شعلہ بیانی نہ رہی
ترکِ محفل کو کبھی ہم بھی سمجھتے تھے گراں
جب سے تنہا ہیں لگے کوئی گرانی نہ رہی
ایسا لُوٹا ہے مجھے میرے وطن والوں نے
اب مِرے پاس تِری کوئی نشانی نہ رہی

44