بن کے دستِ فتنہ گر
ہم پہ تُو جفا نہ کر
پہلے بھی تو ہوتے تھے
تھے مگر وہ معتبر
تیرا میرا ربط تھا
اس کی بھی نہ کی قدر
قدموں میں تُو غیر کے
سر جھکائے یہ خبر
ہے بھلا یہ کس طرح
پاس تیرے مال و زر؟
بن چکے ہیں یرغمال
تیرے ہاتھوں نامہ بر
منصفی نہ اب رہی
دل میں سب کے تیرا ڈر
زعمِ اختیار میں
تو چلا ہے کِس ڈگر؟
التجا محبتیں
کچھ رہا نہ کارگر
عمر کے زوال میں
ضد نہ اختیار کر
بس تو اتنا جان لے
شب ہے اختتام پر
اپنوں پر نہ وار کر
اپنی حد نہ پار کر

0
28