مجھے تو آخرت اپنی ابھی بھاری نہیں کرنی
ضرورت چاہے جتنی ہو خطا کاری نہیں کرنی
لہو ہی گر میسّر ہو گُلوں میں رنگ بھرنے کو
تو ایسے میں ہمیں کوئی بھی گُل کاری نہیں کرنی
کبھی اترن پہ لپکے ہے کبھی چلمن کو ترسے ہے
جسے کہتے ہیں خدمت لوگ سرکاری نہیں کرنی
ڈبونا ہے جوانوں نے مِرے اس ملک کو یکسر
بزرگوں نے اگر بالکل ہی سرداری نہیں کرنی
مجھے اصلاح کرنی ہے اگر کچھ میں برا دیکھوں
مِری اقدار عمدہ تھیں سو غدّاری نہیں کرنی
ہیں اکثر نوکری کرتیں گھروں کی رانیاں جو تھیں
کہا جب سے اُنھوں نے، صرف گھرداری نہیں کرنی
بلا سے اس کی جو میرا چُرا لے کوئی سب کچھ ہی
محافظ کو مِرے اب شب کی بیداری نہیں کرنی

0
20