جستجو کی لو پر جب آگہی دہکتی ہے
خاکسار بندے کی گفتگو مہکتی ہے
نفس ابنِ آدم کا جسم و جاں پہ حاوی ہے
دل نے کیا دھڑکنا ہے آرزو دھڑکتی ہے
ہم نے حال دنیا کا اس قدر بگاڑا ہے
زندگی کو دیکھے تو موت بھی سسکتی ہے
درگزر کی باتیں میں گرچہ کرتا رہتا ہوں
انتقام لینے کی آگ بھی بھڑکتی ہے
آدمی کوئی بھی ہو پر تھکن کو روتا ہے
ماں عجیب ہستی ہے جو کبھی نہ تھکتی ہے
کرتا ہوں شرارت میں ماں کی ڈانٹ کھانے کو
ماں کی ڈانٹ میں بھی تو مامتا جھلکتی ہے
ہم نے تم کو جانا ہے اب کے اس قدر یارا!
کہنے کو بہت کچھ ہے پر زباں جھجکتی ہے
قوم جس کو کہتے تھے اس خیالِ عمدہ کی
جل چکی چِتا اور اب آتما بھٹکتی ہے
کھیل تُو نے دنیا کا کیا عجب رچایا ہے
آدمی کی نیّت ہی ہر گھڑی بہکتی ہے

0
57