اجڑے سے وطن کا تُو نہ اب بین کیا کر
حالات کہ جیسے بھی ہوں تُو کھل کے جیا کر
جو جان نچھاور کیا کرتے تھے وہی لوگ
غدار تجھے کہہ گئے نیت تِری پا کر
جس کو تھا مقرر کیا حفظانِ وطن پر
وہ شخص ہے للکارتا اب سامنے آ کر
گرچہ کہ ابد سے تِرا رونا ہے مقدر
لیکن عدو کے سامنے تُو ہنستا رہا کر
وہ اب بھی ہے بستا مِرے اس خانۂِ دِل میں
جو مجھ سے ہوا دُور اِک دیوار اٹھا کر
یاں دوست ہیں کم اور زیادہ ہیں دشمن
اب جو بھی ہیں حالات تُو خود ان سے نبھا کر
ہم روشنی کے خواہاں ہیں، قیمت ہو کوئی بھی
کچھ دیر تو چمکیں گے ہم خود کو جلا کر

0
18