ہم نے ہے چاہتوں کا دیوان بنا ڈالا
ہستی تِری کو جس کا عنوان بنا ڈالا
اب دُور جا کے ہر پل سکوں سے رہنے والے
مِری زندگی کو تُو نے ہے طوفان بنا ڈالا
اٹھیں تو کاٹ دو اور جھکیں تو روند ہی دو
دیوانے نے ایسا ہے فرمان بنا ڈالا
یاں روشنی کے خواہاں سب کے سب اندھوں نے
اندھے کو ہی ہے اپنا سلطان بنا ڈالا
اے دردِ دِل تُو یکسر اپنی طلب نہیں تھا
بس خود کو بھولنے کا سامان بنا ڈالا
بس ہمرے شناسا کو ہو ہم ہی سے شناسائی
ہم نے یہی جیون کا ارمان بنا ڈالا
جو کچھ بھی چاہتا تھا کہ ہر انساں سمجھ سکے
تو رب نے مرے اسی کو قرآن بنا ڈالا
اپنایا جو مجھ کو تو ڈالا ہے راہِ حق پر
یہ عشق مِرا تُو نے ہے وجدان بنا ڈالا
لِکھا تِرا وہ کیسے پڑھ پائیں گے مصدق
تو نے بھی تو اندھوں کو ہے جانان بنا ڈالا

0
4