تم کتابوں کی بات کرتے ہو؟
یا کہ بابوں کی بات کرتے ہو؟
علم کی روشنی سے ڈرتے ہو
آفتابوں کی بات کرتے ہو
پوچھتے تم کوئی سوال نہیں
اور جوابوں کی بات کرتے ہو
جھوٹ ہی جھوٹ تھا چھپا جن میں
ان نصابوں کی بات کرتے ہو
موت آتی ہے کام کرنے سے
کامیابوں کی بات کرتے ہو
کِھلنے سے پہلے جو ہیں مسلے گئے
ان گلابوں کی بات کرتے ہو؟
تم میں ہمت نہیں ہے چلنے کی
بس سرابوں کی بات کرتے ہو
زندگی ہی تو ہے عذاب اپنی
کیا عذابوں کی بات کرتے ہو
زیست ہے ہر گھڑی خسارے میں
کیا حسابوں کی بات کرتے ہو
مِری رگ رگ میں ہے خمارِ جنوں
کیا شرابوں کی بات کرتے ہو
تم اماوس کی سرد راتوں میں
ماہتابوں کی بات کرتے ہو
جن کو دیکھیں تو نیند سے جاگیں
ایسے خوابوں کی بات کرتے ہو؟
تال و سر کی سمجھ نہیں تم کو
اور ربابوں کی بات کرتے ہو
عمر بھر خار ہو چبھوتے رہے
اب گلابوں کی بات کرتے ہو
پہلے غیرت تو ڈھونڈ کر لاؤ
انقلابوں کی بات کرتے ہو
تم میں بس اِک یہی خرابی ہے
تم خرابوں کی بات کرتے ہو

3
87
یہ غزل ڈاکٹر شاہد محمود صاحب کی غزل سے متاثر ہو کر اسی زمین میں لکھی گئی ہے اور اس کا تمام تر سہرا ان ہی کے سر ہے۔

0

0
واہ واہ کیا بات ہے جناب !