Circle Image

Dr. Shahid Mahmood

@Baardo

ميں اپنے درد کی لینے کو جو دوا نکلا - پتہ چلا کہ مرا درد لا دوا نکلا

سوال ہی سوال تھے جواب مانگنے لگے
چبھا جو ان کو سچ بہت سراب مانگنے لگے
سنا تو تھا طمع کی کوئی حد نہیں زمین پر
سفر کا رخت لوٹ کر وہ خواب مانگنے لگے
شباب میں شباب کا خیال ہی نہیں رکھا
شباب جب چلا گیا شباب مانگنے لگے

3
26
میں گم گیا تھا کبھی خود کو پھر ملا ہی نہیں
بس ایک زخم تھا جو آج تک سلا ہی نہیں
مجھے تلاش تھی اک شخص کی جو کامل ہو
مگر وہ شخص کبھی آج تک بنا ہی نہیں
میری لکیروں میں در در کی ٹھوکریں لکھ دیں
مگر یہ میں ہوں کہ اس سے کوئی گلا ہی نہیں

0
5
ہنستی آنکھوں میں خونِ جگر بھر لیا ہنستے ہونٹوں کو اشکوں سے تر کر لیا
غم ہمیں چھو کے گزرا نہیں تھا کبھی عشق میں ڈوب کر سر بسر کر لیا
بے مزہ زندگی کا سفر جب لگا راستے کو بہت پر خطر کر لیا
گھر کی مایوسیوں سے جو نالاں ہوئے میکدے کو ہی پھر اپنا گھر کر لیا
ہم ترستے رہے پر ملی ناں کبھی ان کی جانب سے کوئی بھی اچھی خبر
کان میں ٹھونس لیں انگلیاں اور پھر خود کو ہم نے یہاں بے خبر کر لیا

0
13
اوروں کے زخم کے نشاں تک بھی نہیں رہے
خود کو دیئے جو زخم وہ اب تک نہیں بھرے
ہم پر شریف ہونے کی پرچی چپک گئی
کثرت سے سوچتے رہے کچھ کر نہیں سکے
وہ آنا چاہتا ہے پلٹ کر ہمارے پاس . .
لیکن جو پہلے ہم تھے وہ اب ہم نہیں رہے

0
13
بہت وسیع تھا پاتال اس لیے شاہدؔ
پھلانگ ہی نہ سکا دل میں خوف اتنا تھا

0
2
میں نے یہ کب کہا کہ تُو فکرِ معاش کر
سب کام چھوڑ چھاڑ کے خود کو تلاش کر
اب وقتِ انقلاب ہے تو سوچ کو بدل
ماضی کے جتنے بت ہیں تُو سب پاش پاش کر
تُو رک گیا تھا اور سمے آگے نکل گیا
رُخ دیکھ کر ہوا کا تو اپنی تراش کر

15
میں گھر سے نکلا تھا خواب لے کر
میں راستے میں بھٹک گیا ہوں
جنم جنم کا تھا میں شرابی
بس اک جھلک سے بہک گیا ہوں

0
2
طالبِ علم طلب گار ہی رہ جائے گا
پانے والا ہی سبھی راز یہاں پائے گا
جھوٹی امید بہت درد کا باعث ہو گی
چاند تارے وہ کبھی توڑ نہیں لائے گا
اس سے بچھڑے ہیں تو یہ وہم ہمیں لاحق ہے
ہم نہ ہوں گے تو وہ اب ظلم کہاں ڈھائے گا

0
11
فیصلے دل کے غلط ، مان لیا ہے شاہدؔ
فیصلے عقل کے کب ٹھیک ہوا کرتے ہیں

0
2
جل کر یہاں پہ لوگ تو کندن کے ہو گئے
ہم کیا جلے ہمارے تو سائے بھی جل گئے

0
3
میں روز اپنی عدالت میں پیش ہوتا ہوں
بہشت کے لیے یہ اہتمام تھوڑی ہے
ملا نہ شغل کبھی جس سے عشق ہو مجھ کو
کہ جس میں دل نہ لگے اب وہ کام تھوڑی ہے
ہمارے درمیاں گہرا سکوت طاری ہے
کلام ہے تو سہی پر کلام تھوڑی ہے

0
1
وہ ہی ہوتا ہے جو ہوا ہو گا
کیوں سمجھتے ہو کچھ نیا ہو گا
اس کی خوشبو ہوا میں پھیلی ہے
اس گلی میں کہیں رہا ہو گا
اس کا چہرا اجاڑ لگتا ہے
جب سے بچھڑا ہے اب ہنسا ہو گا

4
نرم ہو جاؤں نہ تو وقت کڑا رہنے دے
کھینچ ناں تیر یہ سینے میں گڑا رہنے دے
اتنی مہلت نہ ملی میں کہ خزاں تک رکتا
میں بہاروں میں جھڑا ہوں تو جھڑا رہنے دے
اب تو ہونے میں نہ ہونے میں کوئی فرق نہیں
تو مجھے ریت کے صحرا میں گڑا رہنے دے

0
14
سارا چکر ہی خواہشوں کا ہے
سُکھ نہ مانگو تو دُکھ نہیں ملتے
منزلوں پر کبھی نہیں پہنچے
اپنے رستے کبھی نہیں چلتے
آگ سے بچ کے ہم نکل آئے
آنسو رکتے تو آگ میں جلتے

0
11
میں خواب میں زندہ رہتا ہوں
جب آنکھ کھلے مر جاتا ہوں

0
8
زندگی کو سیکھنے میں زندگی گذار دی
شاعری کیا سیکھتے یاں وقت ہی نہیں ملا

0
6
شخص ڈھنگ کا کبھی ملا ہی نہیں
کیسے جینا تھا کچھ پتا ہی نہیں
گمشدہ وقت کے سمندر پر
ایسی کشتی کہ ٭ناخدا ہی نہیں (٭ملاح
زندگی بھی عجب پہیلی ہے
راز ہم پر کبھی کُھلا ہی نہیں

0
6
سلامتی کا انہیں اب گُمان دینا ہے
ابھی تو سر پہ انہیں سائبان دینا ہے
یہاں پہ محنتوں پہ پھل کبھی نہیں آتا
یہ روح بیچ کے ان کو جہان دینا ہے
وہ نا سمجھ ہیں ابھی تک کھلونے مانگتے ہیں
انہیں خرید کے یہ آسمان دینا ہے . .

0
11
میں خوابوں سے لڑتا رہا آج تک
میں سایوں میں چھپتا رہا آج تک
میں سوتے میں چلتا رہا آج تک
لگا تار موسم بدلتا رہا
سمے کا سمندر بھی چلتا رہا
ہوا اس طرح زندگی کھو گئی

0
12
روح زخمی جب ہوئی اس سے جدا رہنے لگے
پہلے اس سے تھے خفا سب سے خفا رہنے لگے
زندگی آہستہ آہستہ سمٹتی ہی گئی
رات دن پھر خود میں ہی ہم مبتلا رہنے لگے
جستجو آغاز میں تھی علم کی ہم کو بہت
بعد میں ہر چیز سے نا آشنا رہنے لگے

0
9
زخم تھا روح پر سلا ہی نہیں
کیوں لگا راز یہ کھلا ہی نہیں
خود ہی ڈھونڈے ہیں راستے میں نے
خضر کوئی کبھی ملا ہی نہیں
آگ کندن بنا کے چھوڑے گی
آج تک اس طرح جلا ہی نہیں

11
اس کو کب سے میں نے پلکوں پہ بٹھا رکھا ہے
پاؤں اس کے میں زمیں پر نہیں آنے دیتا

0
5
وہ خدا ہے تو زمیں پر نہیں آنے دیتا
خاک پھر خاک نشیں پر نہیں آنے دیتا
اس نے ہر بار ہی توڑا ہے بھروسہ میرا
پھر بھی سایہ میں یقیں پر نہیں آنے دیتا
ظلم سہتا ہوں میں چپ چاپ شکایت کے بغیر
ایک بل بھی میں جبیں پر نہیں آنے دیتا

0
12
وہ خوشی کا رنگ بھی جھڑ گیا
تیرا غم بھی مجھ سے بچھڑ گیا
وہ جو رشتہ صدیوں بُنا یہاں
وہ بس اک بحث میں اُدھڑ گیا
مرے پاس تھا تو نجانے کیوں
مرا اس سے فاصلہ بڑھ گیا

0
7
گرا ہوں جب بھی کبھی اُٹھ کے دوڑ پڑتا ہوں
میں بُھر بُھرا سہی ٹوٹا نہیں ابھی تک میں

0
5
ہماری راہ میں کوئی شجر نہیں آتے
خبر یہ پہلے سے ہوتی ادھر نہیں آتے
ہم اپنے سر میں بہت آگ لے کے پھرتے ہیں
مگر یہ شعلے کسی کو نظر نہیں آتے
مہیب صحرا سے زندہ نکل کے آئے ہیں
نظر اسی لیے اب بحر و بر نہیں آتے

14
میرے حق میں جو شہادت ہو مٹا دیتا ہے
مجھ کو ناکردہ گناہوں کی سزا دیتا ہے
ظلم سہنے کی اب عادت سی ہوئی ہے ایسی
اس کا ہر ظلم عجب مجھ کو مزا دیتا ہے
دن میں تو خواب دکھاتا ہے سہانے مجھ کو
رات کو آنکھ لگا لوں تو جگا دیتا ہے

0
8
قدم قدم پہ یہاں پر کیوں جال رکھا ہے
ہر ایک لب پہ یہاں یہ سوال رکھا ہے
امیرِ شہر پہ بے انت رحمتیں برسیں
غریبِ شہر کو کیوں پائمال رکھا ہے
نہ مہر ہے نہ محبت نہ ہی وفا نہ گلہ
لہو کا رنگ نجانے کیوں لال رکھا ہے

15
بھیک مانگی تھی بس محبت کی
کاسہ نفرت سے بھر دیا اس نے
وہ نہیں مانتا کہ اس نے دیا
روح کا زخم پھر دیا کس نے
مرا احساس میرا قاتل ہے
مجھ کو مارا ہے بس مری حس نے

0
1
30
تم ہار گئے شرط کہ توڑو گے جفا سے
اس بار مجھے توڑ کے دیکھو تو وفا سے
سرکش ہوں جھکوں گا نہ کبھی جبر کے آگے
شاید تمہیں مل جاؤں میں اس بار دعا سے
جو بھی ملا مجھ کو مجھے دھوکے ہی ملے ہیں
شکوے مجھے لوگوں سے شکایت ہے خدا سے

0
11
رنجشیں ان سے پالتے ہی نہیں
شکوے اب ہم اچھالتے ہی نہیں
ہر گھڑی رنج و غم تعاقب میں
اور ہم ہیں کہ ٹالتے ہی نہیں
زخم دل میں سمیٹ لیتے ہیں
درد باہر نکالتے ہی نہیں

17
وہ میرا پیار ہے کُل کائنات تھوڑی ہے
رضا کا ربط ہے قیدِ حیات تھوڑی ہے
بس ایک باب کا عنوان ہی محبت ہے
تمام عمر کی یہ واردات تھوڑی ہے
تمام رشتے یاں اب موسموں کی زد میں ہے
کسی لگاؤ کو یاں پر ثبات تھوڑی ہے

0
16
ہوس ہے جسم کی اس میں محبتیں کیسی
گھڑی ہیں لوگوں نے دیکھو حکایتیں کیسی
جدا تھے ان سے تو ملنے کو ہم تڑپتے تھے
ملے تو جاگ اٹھی ہیں عداوتیں کیسی
چلو یہ مان لیا سچ تھا جو کہا تم نے
یہ دل تو ٹوٹ چکا ہے وضاحتیں کیسی

0
16
قابل تو تھا مگر کبھی موقع نہیں ملا
پچھتاوں کے سوا مجھے حاصل نہ کچھ ہوا
کیوں حوصلہ شکن ہی مقدر میں تھے مرے
جس کا بھی ہاتھ پکڑا اسی نے تباہ کیا

0
10
جہاں پہ ہم تھے وہاں پر قیامتیں تھیں بہت
اکال* اِس طرف اور اُن کو راحتیں تھیں بہت
امیرِ شہر پہ اس کی نوازشیں تھیں بہت
خدا سے اس لیے مجھ کو شکایتیں تھیں بہت
کسی نے لوٹا وطن پر کسی نے مذہب پر
اسی لیے تو یہاں پر مصیبتیں تھیں بہت

0
25
تو ہے شمشیر بکف سانس پہ ہے ضبط مجھے
ایک بھی آہ نہ نکلے گی ذرا وار تو کر

10
تجھ سے مل کے میری سوچیں سوگوار ہو گئیں
مسکراہٹیں کیوں دکھ سے ہمکنار ہو گئیں
مجھ میں تھیں جو خوبیاں وہ خامیوں میں ڈھل گئیں
خامیاں جو تھیں مزید آشکار ہو گئیں
راکشس کو نیند سے نجانے کیوں اٹھا دیا
خواہشیں میری تمام داغدار ہو گئیں

21
جسم میرا خاک تھا پھر خاک ہو کر رہ گیا
نام پتھر پر کھدا تھا نام ہی بس رہ گیا
کیسے کیسے نامور تھے خاک میں زم ہو گئے
اک قلندر خامشی سے کان میں یہ کہہ گیا
میں کھڑا تھا جن کی خاطر سنگ انہی ہاتھوں میں تھے
سیلِ غم کے سامنے تو میں اسی دن ڈھ گیا

0
30
میں ایک دن تجھے اتنی بڑی سزا دوں گا
تجھے نظر سے سرِ عام میں گرا دوں گا
نہ کرنا یاد کرانے کی کوششیں مجھ کو
برے دنوں کی طرح میں تجھے بھلا دوں گا
ہمارے پیار کے قصے سنائے جاتے ہیں
میں ان کو داستاں عبرت کی اک بنا دوں گا

0
16
وہ پیار کرتا ہے لیکن فدا نہیں ہوتا
وہ روز لڑتا ہے پھر بھی جدا نہیں ہوتا
ہے استوار تعلق اسی کی شرطوں پر
اگر کہوں بھی تو مجھ سے خفا نہیں ہوتا
عجیب اس کی طبیعت میں چڑچڑا پن ہے
وہ تلخ رہتا ہے کچھ بھی ہوا نہیں ہوتا

0
21
اپنی مردانگی کو آج ڈبویا جائے
بیٹھ کے دریا کنارے کہیں رویا جائے
میں نے بچپن سے پیے غم مگر اب سوچتا ہوں
بھر گیا ہوں کہاں اب ان کو سمویا جائے
داغ دامن پہ لگے ہیں نہیں دکھتا کچھ بھی
خوب مل مل کے اسے اچھے سے دھویا جائے

19
پوری زمین پر کوئی اس سے بھلی نہیں
اس کی گلی سے خاص یاں کوئی گلی نہیں
یادیں تھیں یا کتاب تھی دیمک زدہ کوئی
مٹی کے جیسے بُھر گئی لیکن کھلی نہیں
اچھا تھا اس کا فیصلہ جو چھوڑ کر گئی
مٹی میں میرے ساتھ یاں وہ بھی رُلی نہیں

19
آنکھ سے آنکھ ملانے کی ضرورت کیا ہے
دردِ دل پھر سے جگانے کی ضرورت کیا ہے
میرے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں
میں خفا ہوں تو منانے کی ضرورت کیا ہے
فیصلہ ترکِ تعلق ہے بتاؤ تو سہی
راز یہ مجھ سے چھپانے کی ضرورت کیا ہے

22
آب و دانہ تیرا بھی ہے میرا بھی
وہی نشانہ تیرا بھی ہے میرا بھی
دیمک جس کی بنیادوں کو چاٹ گئی
اس میں ٹھکانہ تیرا بھی ہے میرا بھی
گھر کا بوجھ بہت ہے میرے کاندھوں پر
یہی بہانہ تیرا بھی ہے میرا بھی

22
دِکھے جو آنکھ سے زخم نہیں ہے
جو لفظوں میں بیاں ہو غم نہیں ہے

0
12
وہ میرے ساتھ ہے محرم نہیں ہے
وہ میرے زخم کا مرہم نہیں ہے
مجھے اس سے محبت ہے مگر کیوں
وہ سب کچھ ہے مرا عالم نہیں ہے
میں پیدا دکھ کے موسم میں ہوا تھا
خوشی کا راس اب موسم نہیں ہے

14
نفرت کے کئی تیر اب سینے میں جڑے ہیں
بھائی بھی مرے آج مجھی سے ہی لڑے ہیں
سُولی پہ جو لٹکا تو کوئی ساتھ نہیں تھا
اب تخت پہ بیٹھا ہوں تو سب ساتھ کھڑے ہیں
قسمت کا شجر دیکھ کے صدمے میں ہوں اب تک
قسمت کے سبھی پتے تو پہلے سے جھڑے ہیں

14
گرہ یہ آج تک کبھی کسی سے بھی کھلی نہیں
سمجھ نہیں سکا کوئی یہ راز راز ہی رہا
یہ قسمتوں میں تھا لکھا کہ کاوشوں کے باوجود
کبھی نہ فاش ہو سکا یہ بھید کائنات کا

0
10
مجھے دن بھر یہ دوزخ پیٹ کا مصروف رکھتا ہے
میں انگاروں پہ سوتا ہوں گلہ ہے یہ مرا شب سے

6
اپنے ہونے کی سزا کاٹ رہا تھا کب سے
بڑھ گیا درد ہوئی مجھ کو محبت جب سے
میرے اندر سے کوئی سُر نہیں نکلا اب تک
کرچیاں چپکی ہوئی کیوں ہیں نجانے لب سے
ان اجالوں سے کبھی غم کے سوا کچھ نہ ملا
تلخیاں بڑھنے لگی ہیں ابھی میری شب سے

23
زندگی کی رائیگانی کا ملال کیوں نہیں
رائیگاں نہ تھی تو اب یہ باکمال کیوں نہیں

0
11
مجھے ایک پل بھی سکوں نہ تھا وہ حریفِ جاں میرے گھر میں تھا
مجھے اس سے کچھ بھی گلہ نہیں "وہ تو خود فنا کے سفر میں تھا"
میری منزلیں کہیں کھو گئیں میرے خواب مجھ سے جدا ہوئے
میری عمر گردِ سفر ہوئی میں ہمیشہ راہ گزر میں تھا
مجھے وقت دیتا رہا صدا میں نہ سن سکا نہ سمجھ سکا
نہ تھا قسمتوں میں لکھا ہوا کہیں شور میرے ہی سر میں تھا

0
22
اب شام ڈھلی بڑھنے لگے رات کے سائے
میں سو کے اٹھوں گا کوئی یہ آ کے بتائے
پرکھے گئے کرگس کے ہی معیار پہ ہم تو
شاہین تھے وہ ہم کو سمجھ ہی نہیں پائے
بے ضبط رہی ہم سے محبت کی گواہی
آنسو کبھی میں نے کبھی اس نے بھی چھپائے

1
20
سوکھے درخت پر ہی فقط آشیاں رہا
لیکن مرے وجود میں آتش فشاں رہا
ڈر تھا کہ جل نہ جائے یہ خود سے ہی زندگی
یہ خوف بس تمام عمر ناگہاں رہا
رشتے تمام مٹھیوں کی ریت ہو گئے
تتلی تو اُڑ گئی مگر اس کا نشاں رہا

1
25
ہمت مری دیکھی ہے ضرورت نہیں دیکھی
دیکھی ہے شکایت مری غربت نہیں دیکھی
قابیل ہوں لایا وہی جو تھا مرے بس میں
دیکھی ہے علامت مری نیت نہیں دیکھی
فرض ایک بھی اب تک میں نبھا ہی نہیں پایا
صورت مری دیکھی ہے ندامت نہیں دیکھی

22
لمحۂ ناگوار باقی ہے
آخری اس کا وار باقی ہے
نہ مسافر نہ منزلوں کے نشاں
اب فقط رہ گزار باقی ہے
وہ تو آ کر چلا گیا کب سے
اس کا اب انتظار باقی ہے

12
کیا ملا آ کے مجھے کوچۂ رسوائی میں
فاصلے بڑھتے گئے ان سے شناسائی میں
گر میں ڈوبا ہوں تو ساحل پہ نہ ڈوبا ہوں گا
کوئی جا کے مجھے ڈھونڈو ذرا گہرائی میں
سچ سے چھلنی ہوئے لوگوں کی جو حالت دیکھی
اعتبار اٹھ گیا ہر طرح کی سچائی میں

17
کاش ہاتھوں کی جگہ پاؤں اچھالے جاتے
پاؤں کٹتے تو مرے پاؤں کے چھالے جاتے
جن پہ احسان کیے وہ ہی فریبی نکلے
اس سے بہتر تھا یہاں سانپ ہی پالے جاتے
اس سے پہلے کہ وہ یہ لفظ چبھوتا دل میں
کانوں میں پگھلے ہوئے سیسے ہی ڈالے جاتے

21
اک طرف زندگی محال بہت
اور خوابوں پہ ہے کمال بہت
اک طرف جوش ہے امنگوں کا
اور پھر بھوک سے نڈھال بہت
بارشیں رحم کی نہیں رکتیں
اک طرف قہر اور زوال بہت

16
تم تو خوابوں کی بات کرتے ہو
بس سرابوں کی بات کرتے ہو
زندگی اس طرح نہیں کٹتی
تم کتابوں کی بات کرتے ہو
میں نے اپنے بچھڑتے دیکھے ہیں
"تم عذابوں کی بات کرتے ہو"

3
56
دل کے زخموں سے خون رسنا تھا
دل کے زخموں سے شاعری ٹپکی

13
خزاں کے موسم میں میں نکھر کے بہار میں میں جھڑا ہوا ہوں
میں خود سے لڑتا رہا ہوں اب تک ابھی خدا سے لڑا ہوا ہوں
مجھے یہ لگتا تھا میں سکندر ہوں آدھی دنیا کو مات دوں گا
جہاں چلا تھا وہیں پہ پہنچا ہوں سر جھکا کے کھڑا ہوا ہوں
مرے قبیلے کے سب پرندے ہمیشہ رہتے تھے ہجرتوں میں
کسی سفر میں بچھڑ کے ان سے زمین پر میں پڑا ہوا ہوں

33
میں سر اٹھا کے چلوں اس لیے بنا ہی نہیں
میں وہ درخت ہوں جس کا کوئی تنا ہی نہیں
کئی سبب ہیں یہاں پر مری تباہی کے
مری تباہی میں شامل فقط انا ہی نہیں
تباہ کرنے پہ آؤں تو میں سکندر ہوں
تمام عمر مگر دل میں کچھ ٹھنا ہی نہیں

22
کہا ہے جو بھی کبھی اس نے وہ سنا ہی نہیں
میں پیار کے لیے شاید کبھی بنا ہی نہیں

0
13
اک اشارے سے ہی ہم بات سمجھ لیتے ہیں
وہ کہیں دن کو بھی ہم رات سمجھ لیتے ہیں
جنگ اندر کی کبھی ان سے چھپا ہی نہ سکے
دیکھ کر چہرا مرے جذبات سمجھ لیتے ہیں
اپنی سادہ لوحی پہ سخت ہنسی آتی ہے
جنبشِ لب کو ملاقات سمجھ لیتے ہیں

0
29
طبلے کی تھاپ پر اسے دیکھا جو محو رقص
پتھر اچھالنے لگے پاگل سمجھ کے لوگ

0
16
پلاؤ حلوا اڑا کے ناصح
مجھے خدا سے ڈرا رہا تھا
جنم جنم کا میں بھوکا پیاسا
خدا کو کیسے میں جان پاتا
میں دال روٹی سے آگے شاہدؔ
کبھی بھی کچھ بھی نہ سوچ پایا

0
18
اگر محبت ہے جنگ کیوں ہے
اب اس کے ہاتھوں میں سنگ کیوں ہے
اگر تو کٹنا ہی ہے مقدر
پتنگ آخر پتنگ کیوں ہے
کوئی بھی رشتہ نبھا نہ پائے
لہو کا پھر سرخ رنگ کیوں ہے

0
22
نئی لڑائی کوئی اب نہیں لڑی جائے
سکوں سے بیٹھ کے اب بات بس سنی جائے
بہت گھمایا پھرایا ہے ہم نے لفظوں کو
جو دل میں بات ہے اب بات وہ کہی جائے
سکون ایک پل اک دوسرے کو کیا دیتے
اب ایک دوسرے کی جان بخش دی جائے

0
23
مجھے تم اپنے دامن میں چھپا لیتی تو اچھا تھا
یہاں در در کی ٹھوکر سے بچا لیتی تو اچھا تھا
جہاں پر ہم ملے تھے میں وہیں پر چھوڑ آیا تھا
مرا دل منتظر کب سے اٹھا لیتی تو اچھا تھا
وہ اتنے قیمتی کب تھے چھپا کر کیوں انہیں رکھا
وہ پتھر ہو گئے ان کو بہا لیتی تو اچھا تھا

0
29
بیج اپنے دل میں پیار کا بوتا ہے یا نہیں ؟
وہ اپنی عقل پیار میں کھوتا ہے یا نہیں ؟
اس سے چھپا کے زخم میں رکھتا ہوں اس لیے
احساس اس کو درد کا ہوتا ہے یا نہیں ؟
یہ جاننے کی جستجو دل میں ہے ہر گھڑی
وہ میرے دکھ میں بھی کبھی روتا ہے یا نہیں ؟

0
25
میں خواہشوں کے قفس کا قیدی تم الجھنیں بھی شمار کرنا
حسین چہروں کا میں پجاری یہ لغزشیں بھی شمار کرنا
نبھاہ کرتے یہ عمر گذری مگر نبھانا بہت کٹھن تھا
کبھی جو تشخیص کرنے بیٹھو تو کاوشیں بھی شمار کرنا
یہاں مقدر کی تھی اسیری بہت دکھایا ہے دل تمہارا
مگر جو حصے میں آئیں میرے اذیتیں بھی شمار کرنا

32
اس نے ہر رنگ کے دربار سجا رکھے ہیں
ان میں ہر قِسم کے فنکار بٹھا رکھے ہیں
قابلیت کا یہاں لفظ تو رائج ہی نہیں
اس نے کچھ اور ہی معیار بنا رکھے ہیں
شہر کی اس کو خبر رہتی ہے لمحہ لمحہ
ہر جگہ اپنے وفادار بٹھا رکھے ہیں

0
15
رات بھر اہلِ فلسطیں کے لیے روتا ہوں
رحم تم کو نہیں آتا ہے خدا کیسے ہو

0
20
تم بتا دو حادثہ جو اس سفر ہویا نہ تھا
کچھ نہیں میں کہہ سکا کہ وہ لبِ گویا نہ تھا
خوشہ خوشہ ہو کہ میری فصل لوگوں میں بٹی
وہ یہاں کاٹا ہے میں نے جو کبھی بویا نہ تھا
آج پتھر بھی پگھل کر پانیوں میں بہہ گیا
وہ بھی رویا دکھ میں میرے جو کبھی رویا نہ تھا

0
24
عروج پر تو کوفیوں نے بھی وفائیں کیں بہت
زوال میں محبتیں نبھاؤ تو پتہ چلے

26
میں بدلہ لے کے شاہد کیا کروں گا
میں نفرت کو مٹانا چاہتا ہوں

0
21
میں سچ تم کو بتانا چاہتا ہوں
تمہارا سر جھکانا چاہتا ہوں
بہت تم نے مجھے اب تک رلایا
میں اب تم کو رلانا چاہتا ہوں
میں بدلہ لے کے کیا حاصل کروں گا
تمہیں گر میں بھلانا چاہتا ہوں

0
24
اپنی تشکیل کیوں نہیں کرتے
خود کو تبدیل کیوں نہیں کرتے
کتنے سالوں سے منتظر ہوں میں
خط وہ ترسیل کیوں نہیں کرتے
عشق میں عقل کی نہیں سنتے
دل کی تعمیل کیوں نہیں کرتے

33
چراغ گھر کے بجھا گیا ہوں
عدو کو بھی میں بتا گیا ہوں
جو نام مل کے لکھے تھے ہم نے
وہ جاتے جاتے مٹا گیا ہوں
وہ خط محبت میں جو لکھے تھے
میں راکھ ان کی بہا گیا ہوں

28
موت کی شرط ہے انسان کا زندہ ہونا
جب میں زندہ ہی نہیں ہوں تو مروں گا کیسے

13
اس سفر پر یہ سانحہ گذرا
لٹ گئی سب سے قیمتی دولت
چھن گئی مجھ سے میری تنہائی

18
بہت سے ملک دیکھے ہیں
بہت سے شہر دیکھے ہیں
وہاں بھی نیند میں میں نے
بہت سے خواب دیکھے ہیں
اچھوتے خواب تھے سارے
کہ ان خوابوں کا آپس میں

21
جو سب سے سبز ہوتا ہے
وہ پہلے سب سے جھڑتا ہے
جو اونچا سب میں ہوتا ہے
جڑوں سے وہ اکھڑتا ہے
تجھے اک بار مرنا ہے
مگر کیوں روز مرتا ہے

18
قتل خوابوں کو کر دیا کب سے
خون ہاتھوں پہ اب بھی تازہ ہے

21
سر اپنے دشمنوں کے قلم کر دیئے گئے
جو باقی بچ گئے تھے وہ خم کر دیئے گئے
جنگیں تو بزدلی سے ہی جیتی گئیں یہاں
قصے بہادری کے رقم کر دیئے گئے
کہتے ہیں پیار سے یہاں تبلیغ کی گئی
مندر جہاں ملے وہ حرم٭ کر دیئے گئے

23
میں نہ جانے کتنے بروسوں سے تنہائی کا درد بھولنے کی خاطر کال کوٹھڑی کی دیوار کے پتھروں پر اپنے ناخنوں سے کچھ کندہ کرنے کی کوشش کرتا رہا ہوں ۔ جیسے ہی یہ فن پارہ مکمل ہوا ہے تو میں یہ دیکھ کر حیران ہوں کہ اس میں سے تمہاری شبیہ جھلک رہی ہے ۔ کبھی وقت اجازت دے تو آ کر دیکھ لینا ۔ شاید یہ تمہیں میری محبت کا یقین دلا دے ۔ اور ہاں اگر تم ادھر آؤ تو مجھ سے مصافحہ کرنے کی کوشش نہ کرنا ۔ اس فن پارے کی تکمیل کی قیمت مجھے اپنی انگلیوں سے چکانی پڑی ۔
مجھ کو لگتا ہے میں آخری آدمی
بھیڑ میں چل رہا ہوں اکیلا ہوں میں
کوئی ہمدرد تھا کوئی تھا راز داں
کوئی ملتا نہیں چھپ گئے سب کہاں
خود سے میں اجنبی پھر گلہ کیا کروں

28
خواب میں تتلیاں ستاتی ہیں
پر کسی کو میں چھو نہیں پاتا
ان کے رنگوں سے خوف آتا ہے

14
یہ زندگی سمندر
چھوٹی سی ایک ناؤ
ناؤ کا ناخدا میں
لہروں کے ہیں تھپیڑے
پانی بھی کم بچا ہے
اور بادبان اس کا

0
33
کوئی پرندہ کسی روز پھنس ہی جائے گا
میں ایک جال ہوں اور انتظار کرتا ہوں

0
17
میں تو سورج نگل گیا سارا
کیسے لوگوں کو میں دکھائی دوں
خود کو اندر سے باندھ رکھا ہے
خود کو اب کیسے میں رہائی دوں

0
19
آؤ کچھ دیر یہاں میری کہانی سن لو
میں جو لکھ ہی نہ سکا آج زبانی سن لو
میرے ماضی کی کہانی ہے بدل جائے گی
اس سے پہلے کہ یہ ہو جائے پرانی سن لو
نقطے ملتے ہیں ہر اک بار بکھر جاتے ہیں
جو بُنی اس دفعہ وہ جادو بیانی سن لو

0
32
نجانے کیا ہوا اک دن
مری پلکوں پہ آنسو تھے
لبوں پر مسکراہٹ تھی
سمجھ وہ کچھ نہیں پایا
وہ کچھ بھی کہہ نہیں پایا
مگر وہ سہہ نہیں پایا

0
32
ایک بار زندگی تھی وہ بھی ہم جیے نہیں
تھے سوال پر کبھی جواب ہی لیے نہیں
ہم تو ضد پہ اڑ گۓ یہ دشمنی انا کی تھی
کام جو کہے گۓ وہ کام ہی کیے نہیں
زخم تو لگے بہت مگر کوئی گلہ نہیں
پیپ بھی بہی بہت وہ زخم پر سیے نہیں

0
45
اب غریبی کا اپنا مزا ہے صنم
جام خالی ہے پر رقص رکتا نہیں
جو سزا دیں گے سر آنکھ پر وہ صنم
سر ابھی تک اٹھا ہے یہ جکھتا نہیں

0
18
ذات میں زندان ہوتے جا رہے ہیں
حشر کے سامان ہوتے جا رہے ہیں
لوگ بوڑھے ہو کے دانا ہو رہے ہیں
اور ہم نادان ہوتے جا رہے ہیں
اب تو رشتوں میں تفاوت بڑھ گئی ہے
شہر اب ویران ہوتے جا رہے ہیں

1
39
وہ زندگی ہی کیا جس میں کوئی عذاب نہ ہو
سفر ہو صحرا میں اور اس میں پھر سراب نہ ہو !

19
کچھ نہ کچھ تو وہ کر گیا ہو گا
کوئی الزام دھر گیا ہو گا
عشق کرنا کوئی ضروری تھا
عشق میں اس کا سر گیا ہو گا
مار کر وہ نہیں گیا مجھ کو
جانے کیوں آج ڈر گیا ہو گا

0
30
جھوٹ جو صاف دکھ رہا مجھ کو
سچ بنایا ہوا ہے لوگوں نے

0
16
مرے کاندھے پہ لوگوں نے بہائے ہیں بہت آنسو
نجانے کیوں سمجھتے ہیں مجھے رونا نہیں آتا

22
عشق کا روگ لگ گیا ہو گا
اور کوئی نہ راستا ہو گا
چھوڑ کر موڑ مڑ گیا خود سے
میں نے ہی کچھ نہ کچھ کہا ہو گا
اس نے موقع نہیں دیا مجھ کو
میرے ماضی سے آشنا ہو گا

51
یہ میری آنکھیں بہت عجب ہیں
مجھے بھروسہ نہیں ہے ان پر
نہ دیکھ پائیں جو دیکھنا ہے
سدا کی اندھی یہ میری آنکھیں
یہاں محبت کا لفظ رائج
مگر محبت کہیں نہیں ہے

0
31
بہت ہی تاریک غار کوئی
اکیلا ہی جس میں پھر رہا ہوں
قدم قدم پہ میں گر رہا ہوں
نجانے کس کی تلاش مجھ کو
پکارتا ہوں میں نام کوئی
صدا جو ٹکرا کے مڑ رہی ہے

0
201
دھند میں لپٹا تھا اتنا خواب بھی بنتا نہ تھا
شور اتنا سر میں تھا باتیں کوئی سنتا نہ تھا
کانچ کی دیوار اپنے درمیاں حائل رہی
وہ مجھے دکھتے تھے شاید میں انہیں دکھتا نہ تھا
میں بکھرتا جا رہا تھا پر مجھے پروا نہ تھی
جو بھی ٹکڑا گر رہا تھا میں اسے چنتا نہ تھا

0
32
چلا ہوں راہِ عدم پر نہ مڑ کے آؤں گا
وہ روکے لاکھ مجھے کچھ نہیں چھپاؤں گا
ملی تھی زندگی اک پیار میں تبہ کر دی
میں جاتے جاتے یہی شور بس مچاؤں گا

0
16
درد کی داستاں لوگوں کو سناؤں کیسے
سننے والا ہی نہیں شور مچاؤں کیسے
دل کا رشتہ کبھی یک طرفہ نہیں ہو سکتا
میں جو چاہوں بھی اگر اس سے نبھاؤں کیسے
میں زمانے سے تو تنہا ہی لڑا ہوں اب تک
گھر کے افراد سے اس گھر کو بچاؤں کیسے

0
31
بھٹک کے بھی کبھی اس راہ پر گیا ہی نہیں
خضر کبھی بھی کسی راہ میں ملا ہی نہیں
کسی نے مجھ کو یہاں راستہ دیا ہی نہیں
میں بھیڑ چیر کے گذروں یہ حوصلہ ہی نہیں
خموش رہتا ہوں گر حق یہاں ملے نہ ملے
کسی کے سامنے میں آج تک جھکا ہی نہیں

0
30
ادھورا ہوں
میں جب پورا ہوا
اس دن
خدا ہو جاؤں گا
تم سے
جدا ہو جاؤں گا

0
13
سنسان سی راہیں ہیں
بے جان سی آہیں ہیں
مفلوج سے جزبے ہی
حیران نگاہیں ہیں
وہ چھوڑ کے نا جاتا
نادان سی چاہیں ہیں

0
23
وہ اک صلیب تھا لگتا تھا جھولنا مجھ کو
بہت ہی مہنگا پڑا ہے قبولنا مجھ کو
اب اس کا لہجہ بھی اک ناگ بن کے ڈستا ہے
وہ بات کرتا ہے جیسے کہ ہُولنا مجھ کو
گھرا ہوا ہوں یہاں پر انا پرستوں میں
ہر ایک روز ہے سولی پہ جھولنا مجھ کو

0
29
اپنے سائے سے خوف آتا ہے
ایسی تنہائیوں میں زندہ ہوں

0
25
کوئی پاتال ہے جس میں اتر جاتا ہوں روزانہ
جہاں آوارگی میری اکیلا میں ہی دیوانہ
چرا کر لے گیا آنکھوں سے جتنے رنگ تھے ان میں
چمن کا صحن اب مجھ کو لگے جیسے کہ ویرانہ

0
23
بھلا دوں کیسے محبت کے اس فسانے کو
کہ جس نے زخم دیئے روح پر سجانے کو
وہ دشمنوں کی نگاہوں سے دیکھتا کیوں ہے
میں ڈھال بن کے کھڑا ہوں جسے بچانے کو
میں کب سے روکے کھڑا تھا ہجوم لوگوں کا
جلا کے راکھ کیا خود اس نے آشیانے کو

1
34
خامشی جرم ہے کچھ بات سناتے رہیۓ
آپ ناراض ہیں پر ہاتھ ملاتے رہیۓ
پیار جو آگ کا دریا ہے کہاں پیار ہے وہ
آپ اس راہ پہ بس ساتھ نبھاتے رہیئے
آج وہ آئے نہیں بھول گئے ہوں گے شاید
آپ کا کام بلانا ہے بلاتے رہیئے

0
18
حیرت ہے کہ اس سے تو مخاطب بھی نہیں تھے
اس نے جو کہے لفظ مناسب بھی نہیں تھے
ہم کون سے مغلوں کے قبیلے میں پلے ہیں
پھر کیسے کہیں حفظِ مراتب بھی نہیں تھے
ہم اہلِ تذبذب پہ یہ الزام کڑا ہے
ہم اپنی طرف غیر کی جانب بھی نہیں تھے

38
اس کو کبھی بھی مجھ سے محبت نہیں رہی
اب آ کے اس کو میری ضرورت نہیں رہی
ہر موڑ پر نشان اٹھاتا چلا گیا
اب اس نے یہ کہا ہے کہ مہلت نہیں رہی
ہر امتحان میں بھی تو دیتا چلا گیا
سچ بات یہ ہے مجھ میں بھی ہمت نہیں رہی

45
مار غربت سے کھائے ہوئے ہیں
قسمتوں کے ستائے ہوئے ہیں
جیت کر آج ہم کیا کریں گے
ہم ازل سے ہرائے ہوئے ہیں
زخم وہ آئے سینے ہمارے
ہم نے دل میں چھپائے ہوئے ہیں

33
پہلے تو زمیں پر مجھے لانا ہی نہیں تھا
لائے تھے پھر انسان بنانا ہی نہیں تھا
جو بھی ملے مجھ کو وہ دلِ سنگ تھے سارے
میرے دلِ نازک کا ٹھکانا ہی نہیں تھا
سب خواب میں ڈوبے تھے جھنجھوڑا انہیں میں نے
ناراض ہیں مجھ سے کہ جگانا ہی نہیں تھا

24
اس کو دیکھے بنا سانسوں کی لڑی چھوٹتی ہے
آس باندھو تو پھر اگلی ہی گھڑی ٹوٹتی ہے

0
17
شکل دیکھو تو اب گھاگ ہی گھاگ ہیں
روح پر ہر جگہ داگ ہی داگ ہیں
ہم تو وہ ہیں کہ باہر سے برفاب ہیں
اور اندر سے ہم آگ ہی آگ ہیں
ہم اکیلے زمانے سے ٹکرا گئے
سامنے ان کے بس جھاگ ہی جھاگ ہیں

0
25
زلتوں کی وجہ اپنے اسباب ہیں
ورنہ گوہر بھی ایسا کہ نایاب ہیں
یہ ڈبو دیں گے مجھ کو مجھے خوف ہے
خواب سمجھو نہ ان کو یہ گرداب ہیں
چپ رہو آج تنہا مجھے چھوڑ دو
آنسو آنکھوں سے گرنے کو بیتاب ہیں

0
49
میں ایسا معمہ تھا جسے کوئی نہ سمجھا
پیچیدا میں عقدہ تھا جو خود سے نہ ہوا وا

0
20
جو لفظ چھپانے تھے وہ پیغام میں رکھے
الفاظ جو کہنے تھے وہ ابہام میں رکھے
جو پیار میں بولے تھے سبھی اس نے بھلا کر
غصے میں کہے لفظ سب الزام میں رکھے
پھر مجھ کو ستانے میں کسر کوئی نہ چھوڑی
کرچی ہوئے شیشے بھی مرے جام میں رکھے

0
27
اچھی چیزیں دنیا کی سب گوندھ کے مٹی میں
آخر میں سب سے اس نے شاہ سان بنانا تھا

0
25
وہ کوئی اپسرا ہے دیس تھا اس کا گھٹاؤں پر
ہمارے گھر میں وہ آئی ہزاروں التجاؤں پر
زمیں پر رینگنا اس کو کبھی اچھا نہیں لگتا
نگاہیں اس کی رہتی ہیں ہمیشہ کہکشاؤں پر
اسے اس کرگسوں کے ڈار کو اب چھوڑنا ہو گا
اسے اب حکمرانی چاہیے باغی ہواؤں پر

0
40
بس ذرا دیر اپنا بنا لو صنم
جو بھی چاہو گے قیمت چکا دیں گے ہم
ہاتھ پر ہاتھ رکھ دو ہمارے ذرا
اپنا سب کچھ یہیں پر لٹا دیں گے ہم
انگلیاں تو کنول کے تنے کی طرح
مستقل رقص کرتی ہیں تھکتی نہیں

0
32
ایسی بھی کیا مجبوری انسان بنانا تھا
پیدا کر کے پھر اس کو ہر وقت رلانا تھا
کالی مٹی سے اس نے انسان بنایا تھا
میں بھی پتھر لے آیا بھگوان بنانا تھا
ابھی تو آنکھ کھلی تھی پر جانے کا وقت ہوا
بھیجا کیوں جب اتنی جلدی واپس جانا تھا

0
28
ایک ہی کام تھا ذمّے جو یاں کر کے جانا تھا
اک لاچار غلام کو بس آزاد کرانا تھا
صدیوں کا تھا سبق جو شاہدؔ ہم سب بھول گئے
باتوں ہی باتوں میں سب کو یاد دلانا تھا

0
18
میں منکر ہو گیا پہچاننے سے
اسے اب نارسائی کی سزا ہے
کہاں جا کر چھپے ہیں دوست میرے
مرا دشمن بچانے کو کھڑا ہے
جو مجھ کو توڑنے آیا تھا شاہدؔ
مرے قدموں میں وہ بکھرا پڑا ہے

0
25
مولا تمہاری شان میں کیسے لکھے کوئی
الفاظ ہی گرفت میں آتے نہیں کوئی

0
25
سردیوں کے موسم میں
جب جھڑی نہ رکتی تھی
سخت یخ لحافوں میں
ہم کتابیں پڑھتے تھے
گرم گرم چائے سے
بھاپ اٹھتی رہتی تھی

0
24
تم اک خاکہ مٹاؤ گے وہ دس خاکے بنائیں گے
جہاں میں رشدیوں کو مار کے کچھ بھی نہیں ہو گا
چلو راہِ محمدؓ پر تو پھر یہ معجزہ ہو گا
ہزاروں رشدیوں کا کارواں اس راہ پر ہو گا

0
23
جو میری خواہش تھی اور تو نے مجھے وہ کی عطا
شکریہ مولا تمہارا اس سے میں خوش ہو گیا
جو نہ تھا مقصود مجھ کو اور نہیں تم نے دیا
اس کے نہ دینے کا مجھ سے کیسے ہو گا حق ادا

0
23
یہاں جو کچھ ہُوا ہے وہ ہَوا کو سب پتا ہے
عجب خوشبو سی پھیلی ہے کہ جیسے دل جلا ہے
بہت آنسو بہے ہیں پر یہ مٹی خشک کیوں ہے
مری آنکھوں کا پانی اس ہوا نے ہی پیا ہے
ہوا رک جاؤ تھوڑی دیر یہ دشمن نہ سن لے
کہ تازہ زخم سینے کا ابھی خود ہی سیا ہے

0
35
زندگی سے کچھ نہ پانے کا الم بھی ہے مجھے
فیصلے اپنے کیے نہ اس کا غم بھی ہے مجھے
تم سے ملنا کیسے کہہ دوں اک تباہی تھی صنم
کچھ تو اپنی ہی زباں کا اب بھرم بھی ہےمجھے
میں کہیں دکھ جاؤں اس کو یہ گوارا ہی نہیں
جا نہیں سکتا یہاں سے یہ قسم بھی ہے مجھے

0
26
گھٹا کالی یہ ٹل جائے اگر تم ملنے آ جاؤ
یہ ٹوٹا دل سنبھل جائے اگر تم ملنے آ جاؤ
میں لب کھولوں تو میرے منہ سے انگارے برستے ہیں
مرا لہجہ بدل جائے اگر تم ملنے آ جاؤ
تمہاری راہ میں آنکھیں بھی پتھر ہو گئیں میری
یہ پتھر بھی پگھل جائے اگر تم ملنے آ جاؤ

0
33
جو نہیں ٹوٹا کبھی کیسے بنے گا وہ نیا
کچھ نیا بننے سے پہلے ٹوٹ جانا چاہیے

0
20
زندگی سے کچھ نہ پانے کا زخم بھی ہے مجھے
پھر گلہ بھی نہ کروں ایسا حکم بھی ہے مجھے

0
21
میں اکثر سوچتا ہوں زندگی کی شکل کیا ہوتی ؟
تباہی وصل نے کی زندگی بے وصل کیا ہوتی ؟
چمن میں ہر طرف ہی خار تھے واں پھول کیا کھلتے
نہ بوتے نفرتیں تو زندگی کی فصل کیا ہوتی ؟
تمہیں اس جسم کے سرداب میں میں نے جگہ دی تھی
تمہیں بے دخل کرتے زندگی دراصل کیا ہوتی ؟

0
42
کون یاں حق میں مرے آج صفائی دے گا
دے بھی دی اس نے مگر دل نہ رہائی دے گا
ایسا سایہ ہوں سرِ شام جو گھر سے نکلے
خون جب آنکھ سے ٹپکا تو دکھائی دے گا
شور اتنا ہے کہ اب کان پھٹے جاتے ہیں
جو میں سنتا ہوں انہیں کب وہ سنائی دے گا

0
37
میں ماں کو کیا جواب دوں میں ماں کو کیا جواب دوں
کوئی تو گھر میں ہے شجر کسی قدم میں ہے سفر
کسی کا رخ شمال کو کوئی جنوب کو گیا
کوئی جہاں سے ہم چلے تھے ہے وہیں رکا ہوا
تو کوئی وقت کو بھی پیچھے چھوڑ کر نکل گیا
کسی کا پاؤں دیر میں کوئی حرم میں جا پھنسا

0
38
ہمیں سکھایا یہی گیا تھا ہمیں پڑھایا یہی گیا تھا
کہ اپنی منزل مراد وہ ہی سفر یہ اپنی نجات کا تھا
وہ سر میں سودا سما گیا تھا لگا بلاوا بھی آ گیا تھا
کسی نے اپنا مکان بیچا کسی نے اپنی زمین بیچی
کسی نے گروی رکھے تھے زیور کسی نے اپنی دکان بیچی
چلے تھے گھر سے یہ عہد کر کے خدا سے مل کے ہی اب رہیں گے

0
35
دن مشقت بھرا دن کو مجھے کس بات کا دکھ
تم نے جھیلا ہے اکیلے میں کبھی رات کا دکھ
اس سے رشتہ مرا خاموش محبت ہی رہا
جو کبھی ہو نہ سکی اس سے ملاقات کا دکھ
ہاتھ میں میرے یہ کشکول دیا ہے کس نے
کوئی محسوس کرے گا میرے اِس ہاتھ کا دکھ

0
31
یار باقی نہ پیار باقی ہے
نہ ہی دل کا قرار باقی ہے
جو ملا تھا شراب خانے میں
دوست وہ جانثار باقی ہے
عمر بھر خاک ہی تو چھانی ہے
کون سا اب دیار باقی ہے

0
27
رات دن اک پکار باقی ہے
بندگی کا شمار باقی ہے
نہ ندامت نہ ہے پشیمانی
دیدۂ اشک بار باقی ہے
دل سے ایمان اٹھ گیا ان کے
اب تو خالی قطار باقی ہے

0
38
جسم اب تار تار باقی ہے
روح بھی داغدار باقی ہے
لٹ لٹا کے چلے ہیں میخانا
دل پہ تھوڑا غبار باقی ہے
کُھل گئے ہیں وہ سامنے آ کر
پھر بھی کچھ اعتبار باقی ہے

0
37
مرے پاؤں پھسلتے ہیں جہاں پر لوگ چلتے ہیں
جہاں پر لوگ ہنستے ہیں مرے آنسو مچلتے ہیں
وہ مجھ سے پوچھتا ہے کیوں میں تنہا ہوں زمانے میں
یہاں پر لوگ گرگٹ کی طرح ہر پل بدلتے ہیں
یہاں طاقت ملے تھوڑی تو سیدھی سر کو جاتی ہے
یہ سانپوں کی طرح اپنے ہی بچوں کو نگلتے ہیں

0
43
زندگی میں نے کبھی تجھ سے شکایت نہیں کی
یہ بھی سچ ہے کہ کبھی تجھ سے محبت نہیں کی
نہ فرشتہ نہ مرا نصب فرشتوں جیسا
بن کے انسان کبھی میں نے عبادت نہیں کی

0
21
کھلی کتاب ہوں کوئی سوال تھوڑی ہوں
میں دسترس میں ہوں سب کی محال تھوڑی ہوں
یہ ہاتھ کب سے بڑھایا ہے انتظار میں ہوں
یہ ہاتھ تھام لو دستِ سوال تھوڑی ہوں
وہ آج تک مرے سپنے میں بھی نہیں آیا
غریبِ شہر ہوں میں مالا مال تھوڑی ہوں

0
43
فیصلہ یہ کرو کیا سزا دو گے تم
اپنی محفل میں لا کے رلا دو گے تم
زخم جن کو سلانے میں مدت لگی
ایک لمحے میں ان کو جگا دو گے تم
رات بھر آندھیوں سے بچا کر رکھا
آخری اس دیئے کو بجھا دو گے تم

0
49
تنہائیوں کی اب مجھے عادت سی ہو گئی
خاموشیوں سے مجھ کو محبت سی ہو گئی
خانہ بدوش بن کے گذاری ہے زندگی
پرچھائیوں سے لوگوں کی نفرت سی ہو گئی
جس راستے پہ چل کے اب آئے ہو میرے پاس
چپ چاپ لوٹ جاؤ اسی راستے سے تم

0
47
خود کا غدار ہو گیا ہوں آج
آج خود کو میں مار ڈالوں گا

0
27
میں شاہ تھا غریب سے قسمت بدل گئی
در در کی ٹھوکروں میں مری عمر ڈھل گئی
گذری تھی میرے پاس سے پہچان ہی نہ تھی
قسمت کی اب پری بہت آگے نکل گئی
اس نے مذاق سے جو نشانہ مرا لیا
وہ زنگ سے بھری ہوئی بندوق چل گئی

0
39
جو کل غلط ہوا اب ٹھیک ہو نہیں سکتا
بھلا دو کل کو کہ آج انتظار کرتا ہے
-----------------------------
جو کل کا درد تھا وہ کل کے ساتھ دفن ہوا
جو یاد رکھا تو پھر آج روٹھ جائے گا

0
22
تمہارا نام لینے سے زباں پر مے برستی ہے
ہے فتویٰ شیخ صاحب کا کہ یہ بادہ پرستی ہے

0
26
تمھارا سامنے آنا
مجھے احساس دیتا ہے
میں زندہ ہوں زمیں پر ہوں
تمہارے لفظ کانوں میں
مسلسل گنگناتے ہیں
خوشی کے گیت گاتے ہیں

0
129
ایک نقطہ ماں مری تھی
ایک نقطہ میں بنا
ایک خط ماں سے چلا
ماں سے اپنی جڑ گیا
سلسلہ اچھا چلا
اک بہو پھر آ گئی

0
37
بچپن کے بعد ہم تھے جوانی کے منتظر
یہ کیا ہوا کہ ہم کو بڑھاپے نے آ لیا

0
32
موت کے سبھی غلام
وقت کے سبھی غلام
عارضی سی زندگی
اک سراب زندگی
ہر کوئی غلام ہے
جسم کا کوئی غلام

0
35
جو چراغوں کو ہواؤں کے حوالے کر گیا
اس کی راہوں پر ہمیشہ میں اجالے کر گیا
جس کو ہر دن سونپتا تھا میں خداؤں کو کبھی
وہ مجھے بے فیض لوگوں کے حوالے کر گیا

0
22
دانستہ ترے شہر کی گلیوں میں گمے ہیں
پھر ڈھونڈ کے لانے میں زمانے بھی لگے ہیں
ہر شخص کے ہاتھوں میں یہاں سنگِ ملامت
اوقات سے بڑھ کر یہاں احسان کیے ہیں
ناکردہ گناہوں کی سزائیں بھی بہت ہیں
اوپر سے کچھ احباب پھنسانے میں لگے ہیں

0
38
شاہدؔ تو اب سکون سے خود پر کتاب لکھ
جو درد و غم سہے ہیں اب ان کا حساب لکھ
دامن میں اپنے کانٹے سمیٹے تمام عمر
اب شامِ زندگی میں تو تھوڑے گلاب لکھ
تو ایک اور سارا زمانہ ترے خلاف
ناکام تو ہوا پر اسے کامیاب لکھ

0
45
علم کی روشنی نے کیا چمک نکالی ہے
کہاں چھپاؤں جہالت کے اب اندھیرے میں

0
26
مدت سے یہ اک لاش یہاں زندہ گڑی ہے
بس یہ ہی وجہ ہے کہ شکایت بھی بڑی ہے
اندر مرے اترا ہی نہیں آج تلک تک
تنہائی کہیں روح کی غاروں میں پڑی ہے
احساسِ فراواں کا یہ سیلاب تو دیکھو
یہ خون کے آنسو ہیں کہ ساون کی جھڑی ہے

0
46
دھندلی یادیں پڑ گئیں اب تو
پھول کی پتیاں جھڑ گئیں اب تو
آنے والے کب آئے گا
تنہایاں بھی لڑ گئیں اب تو

0
33
زہر پینے کی تو عادت ہے میں مرتا ہی نہیں
اب تو تریاق پلا دو کہ مری جان چھٹے

0
32
میں نے کہا رکیں ذرا وہ آگے چل پڑے
وہ میرے آنسوؤں پہ چلے اور پھسل پڑے
رویا تو میری آنکھ سے آنسو نہیں گرا
میں ہنس پڑا تو آنکھ سے آنسو ابل پڑے
میں جل رہا تھا کوئی بھی آیا نہیں وہاں
وہ ہنس دیے تو لوگ گھروں سے نکل پڑے

0
34
مجھ کو جب آگ لگی تھی تو ہوا دی اس نے
راہ جو قبر کو آتی تھی مٹا دی اس نے
اس کی عزت کے لیے خون کی ہولی کھیلی
بیچ بازار میں دستار گرا دی اس نے
میں تو پلکوں سے اٹھاتا رہا کانٹے ہر دم
ایک کانٹوں بھری یہ تار بچھا دی اس نے

0
58
روز مجھ سے فساد رکھتا ہے
اس طرح خود کو شاد رکھتا ہے
میری اچھائیاں بھلا کر وہ
غلطی ہر اک وہ یاد رکھتا ہے
روز وہ مسکرا کے ملتا ہے
دل میں پھر بھی عناد رکھتا ہے

0
36
حضرتِ آدم بتا یہ عقل لے کر کیا کیا
ابنِ آدم کو بھگتنی پڑ رہی ہے اب سزا
ہم بھی اب باغِ عدن کی سیر کرتے رات دن
کیا صحیح اور کیا غلط اس بات سے کیا فائدا
تو بھی تو معصوم تھا شیطان کی دیکھو ادا
اس نے گر دانہ رکھا ہوتا تمہارے ہاتھ پر

0
35
جب وہ میرے سامنے آیا پتہ چل جائے گا
اک نظر میں خود سے ہی دل کو مرے وہ بھائے گا
میری ماں نے آسماں کو دیکھ کر مجھ سے کہا
جو لکھا تقدیر میں وہ آنے والا آئے گا
میں نے اک پتھر اٹھا کر پیار سے سر پر رکھا
کیا پتہ تھا ظلم مجھ پر عمر بھر وہ ڈھائے گا

0
38
نجانے کون سی وہ احتیاج رکھتے تھے
پکڑ کے کاسہ مگر سر پہ تاج رکھتے تھے
وہ تنگ دست تھے پر شاہ وہ دلوں کے تھے
مسافروں کے لیے بھی اناج رکھتے تھے
پرانے دور کے دشمن فقط کہانی ہیں
جو دشمنی میں بھی دل میں خراج رکھتے تھے

0
37
میں اپنے آپ کو کب سے تلاش کرتا ہوں
کہیں دکھائی دوں تم کو مجھے بتا دینا

0
21
یہ ابنِ قیس ہے تن تار تار اس کا ہے
تباہ کر دیا جس کو مزار اس کا ہے
وہ دیکھ کر مجھے پہچان ہی نہیں پاتا
مگر یہ زخم بھرا شاہکار اس کا ہے
ہر ایک موڑ پر اس نے دغا دیا مجھ کو
میں بھول جاتا ہوں یہ اعتبار اس کا ہے

0
31
دھند میں پیدا ہوئے پھر دھند میں لپٹے رہے
خود کے ہو کر رہ گئے پھر خود میں ہی سمٹے رہے
خود کو کیا تعمیر کرتے خواب تھے ٹوٹے ہوئے
علم منزل کا نہیں تھا عمر بھر بھٹکے رہے
جسم تھا اپنا حرم میں روح میخانے میں تھی
کچھ سمجھ میں ہی نہ آیا درمیاں لٹکے رہے

0
48
تم نے توڑا تھا ایسی شدت سے
اب میں جڑ کر بھی میں نہیں بنتا

0
21
اور اب انتظار کون کرے
وقت کا اعتبار کون کرے
درد حد سے گذر گیا اب کے
زخم دل کے شمار کون کرے
اب وہ کم کم ہی یاد آتا ہے
روح کو بے قرار کون کرے

0
35
مجھے تنہائیوں سے پیار نہیں
مجھے رشتوں سے خوف آتا ہے

0
20
بہت دلیر تھا پر ہر کسی سے ڈرتا تھا
وہ بات کر کے ہر اک بات سے مکرتا تھا
میں اس کے پیار میں پاگل تھا اور وہ شاید
کبھی کبھی ہی سہی مجھ سے پیار کرتا تھا
بہت حسین تھا اس بات کا علم تھا اسے
نجانے کس لیے ہر روز وہ سنورتا تھا

0
27
چھڑا کے ہاتھ میں رویا کہ بہہ گیا دریا
چھڑا کے ہاتھ ذرا پُر ملال وہ بھی تھا

0
26
یہیں زندگی میں قلندری کہیں کھو گئی
وہ دھمال میں جو بھی لطف تھا کہاں آئے گا

0
34
اَدھیڑ عمر میں بچپن کو لوٹنا چاہوں
ہماری خواہشیں ہر موڑ پر بدلتی ہیں

0
21
میں نے اڑنا سکھا دیا ان کو
گھونسلے اپنے وہ بنا لیں گے

0
25
بہت جتن کیے خود کو تباہ کرنے میں
تمہارے کہنے پہ اب میں سدھر نہیں سکتا

0
18
آج موقع ہے مار لو پتھر
کل یہ موقع محل نہیں ہو گا

0
23
وہ مجھ کو چھوڑ کے کب کا چلا گیا شاہدؔ
مجھے یقین ہے وہ لوٹ کر نہ آئے گا
مگر میں دل سے نکالوں بھی تو نہیں جاتا

0
54
اب جو ٹوٹا تو میں نے سوچا ہے
دل کو کافی بڑا بناؤں گا
آنکھیں ایسی جو دور تک دیکھیں
جو نہ دیکھا وہ دیکھ پاؤں گا
میں نے دیوار خود کھڑی کی ہے
خود ہی اب میں اسے گراؤں گا

0
44
یہ حادثات کا قصہ طویل ہے لیکن
ہمارے ساتھ ہر اک حادثہ یہ گزرا ہے

35
سب رنج و غم سنبھال کے رکھتے چلے گئے
اس بوجھ سے کمر یونہی جھکتی چلی گئی
ہم کو ہر اک جمود کا یاں سامنا رہا
لیکن یہ عمر تیزی سے ڈھلتی چلی گئی

28
لگتا ہے اس کو مجھ سے محبت نہیں رہی
اس کو کوئی بھی مجھ سے شکایت نہیں رہی
چل تو رہا ہے ہاتھ پکڑ کر ابھی مرا
پہلی سی اس کے لمس میں حدت نہیں رہی
سن سن کے کان پک گئے اس کی کہانیاں
اب اس کی گفتگو میں وہ جدت نہیں رہی

0
56
سچ تو یہ ہے کہ اس زمانے میں
کوئی بھی زخم کے بغیر نہیں

0
33
بغیر شرط کے وہ پیار بھی نہ کرتا تھا
بغیر شرط کے اب خود سے پیار کرتا ہوں

0
26
جہاں پہ بچے بڑے ہوئے تھے
نہیں رہا اب وہ آشیانہ

0
28
جسم میں خون منجمد ہے ابھی
میرے حصے میں سرد موسم ہے
اور پھر اس میں چل رہی ہے جھڑی
اس کے رکنے کے انتظار میں ہوں
سانس شاید وہ گن رہی ہے مرے

0
22
عجیب دکھ ہے کہ کچھ کھو گیا ہے میرے سے
مگر جو کھو گیا اس کا پتہ لگانا ہے

19
وقت کے چیتھڑوں نے کیوں شاہدؔ
مل کے یہ زندگی بنائی ہے

24
ہم ستاروں کی راکھ ہیں شاہدؔ
اس سے بڑھ کے بھی معجزہ ہے کیا

25
نیند سے جلد جاگ جاتا ہوں
اب بڑھاپے کو طول دینا ہے

42
جو بھی سوچا تھا کر نہیں پایا
کچھ الگ سوچ زندگی کی تھی

20
میں تو نکلا تھا چھوٹی کشتی میں
جانے لہروں میں پھنس گیا کیسے
اب سمندر نگل گیا ہے مجھے
نیچے پھیلا ہے نیلگوں پانی
اور بس آسمان دکھتا ہے
رہنمائی کو بس ستارے ہیں

39