Circle Image

Dr. Shahid Mahmood

@Baardo

ميں اپنے درد کی لینے کو جو دوا نکلا - پتہ چلا کہ مرا درد لا دوا نکلا

ان پہاڑوں کے پار کیا ہو گا
اور کہاں راستہ یہ جائے گا
اس کہانی کی حد پہ کیا ہو گا
میں نہ ہوں گا تو فرق کیا ہو گا
میں جو تھا بھی تو کوئی فرق نہ تھا
وقت پہلے بھی کب رکا تھا یہاں

0
3
گر چھوڑ کے جانا ہے تو ڈھونڈو نہ بہانے
رستے میں تمہارے کوئی دیوار نہیں ہے

0
4
سوچنے میں عمر گزری ابتدا کیسے کروں
اس کو اپنے آپ میں میں مبتلا کیسے کروں
آرزو میری کرے کوشش رہی یہ عمر بھر
ہو گیا اب مبتلا تو انتہا کیسے کروں
وہ سمجھتا ہے کہ میری زندگی گلزار ہے
درد سے اپنے اسے میں آشنا کیسے کروں

0
6
بستی ویران ہو گئی ہو گی
ہستی زندان ہو گئی ہو گی
اس نے قطع تَعَلُّقی کر لی
میری پہچان ہو گئی ہو گی
اب عدو سے ہے دوستی اس کی
لڑکی نادان ہو گئی ہو گی

14
یاد ہے ہر گلی فرہاد ہوا کرتے تھے
عشق کے مارے تو برباد ہوا کرتے تھے
موت دھندا ہے جو صدیوں سے چلا آتا ہے
یاد ہے شہر میں جلاد ہوا کرتے تھے
بات سچ ہے کہ بہت دکھ ہے فضا میں اب کے
لوگ ہر دور میں نا شاد ہوا کرتے تھے

14
ہماری آرزو تھی تم ہماری آس تو کرتے
ہمارے شغل اپناتے کبھی بن باس تو کرتے
سفر میں ساتھ تھے لیکن تعلق سرسری رکھا
مری ذہنی اذیت کا ذرا احساس تو کرتے
سبھی شکوے گلے بس دل میں رکھے بات تو کرتے
دکھاتے درد اپنے اور ذرا وشواس تو کرتے

16
آگہی کے اندھیرے رستے ہیں
انہیں رستوں پہ ہر رسول گیا
اس کو تعلیم نے تباہ کیا
علم لینے کو جو سکول گیا

0
1
یوسف ہیں ابھی کوئی خریدار نہیں ہے
بکنےکے ہمارے کوئی آثار نہیں ہے

0
8
مرے قدموں کی آہٹ سے جو کھل جاتا تھا دروازہ
میں اب دستک بھی دیتا ہوں مگر وہ در نہیں کھلتا

0
8
نکلے گا بے وفا وہ ، یہ امکان تو نہ تھا
میں سوگ میں تھا مان لو حیران تو نہ تھا
جیسے پہیلیوں میں چھپی ہوں پہیلیاں
اس کو سمجھنا اس قدر آسان تو نہ تھا
یادیں ہر ایک چیز سے لپٹی تھیں اس طرح
اس کے بغیر گھر مرا ویران تو نہ تھا

1
22
شور اتنا ہے مرے "ماضی" کا شاہدؔ کیا کروں
"حال" کی سرگوشیاں مجھ کو سمجھ آتی نہیں

0
8
سوچ کا وہ دائرہ کافی مرا پھیلا گئی
جاتے جاتے بات کچھ ایسی مجھے سمجھا گئی
آخری موقع ملا تھا رائیگاں وہ بھی گیا
آگے بڑھ کر ہاتھ ناں پکڑا گیا شرما گئی
آنکھ اس کی میرے اندر جھانک سکتی تھی مگر
شکل سے میری نجانے کیوں وہ دھوکا کھا گئی

23
ہم پا نہ سکے آج تلک تم کو دعا سے
اب جیت کے دیکھیں گے ذرا تم کو وفا سے
یہ ڈر ہے محبت سے پگھل جائیں گے لیکن
تم توڑ سکو گے نہ کبھی اپنی جفا سے
دم توڑ گئیں آندھیاں ٹکرا کے ہمیشہ
ہم ٹوٹ کے بکھرے ہیں مگر آج صبا سے

13
یوں زندگی کو خود پہ ہی زنداں کیے رہے
ہر شب کو خود پہ ہم شبِ ہجراں کیے رہے
خود کو کہیں پہ رکھ کے بھلایا تمام عمر
ہم اپنی خواہشات کو قرباں کیے رہے

1
10
اسے جب بھی ملے موقع مجھے برباد کرتا ہے
یہی کافی ہے کہ اب بھی مجھے وہ یاد کرتا ہے
بہت دن سے زباں ساکت ہے اور پتھرا گئیں آنکھیں
کروں کیا ہر گھڑی یہ دل مرا فریاد کرتا ہے
جب عادت بے حسی پیدا کرے یہ درد سہنے کی
طریقہ درد کا وہ پھر نیا ایجاد کرتا ہے

13
دیر و حرم نہیں ، نہ ہی میخانہ چاہئے
جس حال میں ہوں اب مجھے ویرانہ چاہئے
سچ اور جھوٹ میں ابھی تفریق کیا کریں
کہنے کو آج کل فقط افسانہ چاہئے
شمع کو اب فروغِ بصیرت سے کیا غرض
شعلے کو داغنے کو تو پروانہ چاہئے

2
30
زندگی کی یہ مات کچھ بھی نہیں
مر کے ہو گی نجات کچھ بھی نہیں
روح اک من گھڑت کہانی ہے
اور یہ قیدِ حیات کچھ بھی نہیں
مسئلہ سارا ہارمونز کا . . . .
دل کی یہ واردات کچھ بھی نہیں

0
22
بات بے بات یہاں خود کو رلایا میں نے
روتے چہروں کو مگر ہنسنا سکھایا میں نے
اُس کا کہنا ہے کہ میں نے اُسے بد نام کیا
اپنا ہر غم یہاں خود سے بھی چھپایا میں نے
وہ یہ کہتا ہے کہ میں بن نہ سکا اچھا رفیق
اُس کا سامان بھی رستے میں اٹھایا میں نے

0
23
ان کو اوصاف جو مطلوب تھے ڈالے نہ گئے
ان کی خواہش کے مطابق ہی تو ڈھالے نہ گئے
جن کا دعویٰ تھا کہ لائیں گے زمیں پر تارے
پاؤں کے خار کبھی ان سے نکالے نہ گئے
سنگ سمجھے ہمیں پر کانچ کے نکلے ہم بھی
ٹوٹ کے بکھرے کچھ ایسے کہ سنبھالے نہ گئے

0
18
بہاریں بھی آشنا رہی ہیں
کبھی کسی کی سدا رہی ہیں ؟
عروسی محفل میں مطربائیں
الم کی دھن گنگنا رہی ہیں
تمہارے منڈپ کی لکڑیاں اب
چتا ہماری جلا رہی ہیں

0
15
میں جب بھی ریل کو دیکھوں سمجھ نہیں آتا
سوار ہونا ہے مجھ کو یا آگے لیٹنا ہے

0
2
تمام رشتے یہاں مجھ سے چھوٹ جائیں گے
جو رشتہ دائمی رشتہ ہے میرا خود سے ہے

0
18
مجھے کہا گیا تھوڑے گلاب لے آنا
عمر گلاب کی بس ایک رات ہوتی ہے
میں اس کو تحفے میں بس اک کتاب دے آیا
مگر وہ عمر کے اس موڑ پر تھی کیا کرتے
جہاں پہ صرف گلابوں کی قدر ہوتی ہے
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - -

0
19
ہم اپنے عمل پر نادم ہیں وہ قصہ اب دہرائیں کیا
پامال کیا خود کو ہم نے تقدیر پہ اشک بہائیں کیا
خواہش تھی چاند ستاروں کی پر فقر تھا حائل راہوں میں
تعبیر نہ جن کی ہو پائی ان خوابوں کو دفنائیں کیا
جس کا بھی تھاما ہاتھ یہاں وہ آدھے رستے چھوڑ گیا
مایوس بہت ہیں لوگوں سے اب اس دل کو سمجھائیں کیا

0
22
ہوئے دردِ پنہاں عیاں کیسے کیسے
ملے ہم کو یاں راز داں کیسے کیسے
رگوں میں رواں خونِ خانہ بدوشی
قفس ہو گئے آشیاں کیسے کیسے
بیاباں میں تنہائیاں کھینچ لائیں
گزرنے لگے کارواں کیسے کیسے

0
27
جھاڑیوں کی اوٹ میں سب راستے گم ہو گئے
ان پہ جو چل کر گئے اب نام ہی بس رہ گئے

0
15
میں آج جو بھی ہوں زخموں کی ہی بدولت ہوں
قوی وہ کرتے رہے جو مجھے نہ مار سکے

21
فرق کیا ہے یہاں وہاں پہنچے
ہم تو ویسے بھی رائیگاں پہنچے
واپسی کا سفر نہ تھا ممکن
گھر سے نکلے کہاں کہاں پہنچے
زلزلے منتظر رہے اپنے
دربدر ہم جہاں جہاں پہنچے

28
اگر روح تھوڑی سی پر نور ہے
وہ چہرہ تو پھر چہرۂ حور ہے
کنارِ لحد آج ہم آ گئے
بدن اب تھکن سے بہت چُور ہے

16
ساتھ اک بھی قدم چلے ہی نہیں
کبھی رادھا سے ہم ملے ہی نہیں
کرشن بچھڑے تھے اپنی رادھا سے
ہجر کے اپنے مسئلے ہی نہیں
اک سرابِ خیال سے ہے عشق
عشق ایسا کہ کچھ صلے ہی نہیں

35
ہمیں خبر ہے شکار ہیں ہم دکھا کے دانہ ہمیں پھنسانا
بقا کا پھر یہ ہی راستہ ہے کہ بھوکا ہی تم ہمیں لڑانا
اکیلی راتوں میں بارشوں میں اکیلے پن کو جو ہو مٹانا
بنا کے تم کوئی بھی بہانہ ہمیں بلانا ہمیں ستانا
نہ غم کے آنسو کبھی بھی پینا نہ دل میں غم کو کبھی دبانا
یہ دکھ کے قصے سنبھال رکھنا ہمیں سنا کے ہمیں رلانا

0
30
مرے مرنے کی خواہش کی وجہ سب سے اہم یہ ہے
ترک کر دیں گے وہ مجھ سے امیدیں باندھنا شاہدؔ

0
10
کیسا انسانِ بے اماں ہوں میں
لمحہ لمحہ یاں رائیگاں ہوں میں
پہلے لوگوں سے بس خفا تھا میں
اب تو خود سے بھی سرگراں ہوں میں
ایک ہونا ہوا ہے نا ممکن
تو زمیں ہے تو آسماں ہوں میں

0
27
خود کو پہچاننے کی کوشش میں
گھنٹوں میں آئینے میں دیکھتا ہوں

0
18
غیر مانوس مہک اب کے ہوا لائی ہے
اس کے قدموں کی اب آواز بھی انجان سی ہے

0
18
حزن سب رنگ مجھ میں بھرتا ہے
غم مرے پاس آ ٹھہرتا ہے
شام کا جھٹ پٹا سا پیلا پن
کیوں مری روح میں اترتا ہے
صبح پیروں کے نقش ملتے ہیں
کون اس راہ سے گزرتا ہے

0
22
ایک حد پر تمام رشتوں میں
ایک لمبی لکیر کھینچی ہے
جس کو میں پار کر نہیں سکتا
جس کو وہ پار کر نہیں سکتے

0
22
نیند کی اندھی وادی میں
شب بھر چلتا رہتا ہوں
آنکھوں سے یہ ظاہر ہے
نیند پہنچ سے باہر ہے
آدھی میرے اندر ہے
آدھی میرے باہر ہے

0
26
اپنی مرضی سے کوئی کام نہیں کر پائے
زندگی میں کبھی آرام نہیں کر پائے
رائیگانی کی کوئی رسم نہ چھوڑی پھر بھی
خود کو ہم بندۂ بے دام نہیں کر پائے
پیار کی بولی ہماری کبھی سمجھے ہی نہیں
پیار سے اُن کو کبھی رام نہیں کر پائے

0
29
چین بس لمحۂ ناگوار میں ہے
درد جو چاہیے وہ پیار میں ہے
ایک پل کا فراق لا محدود
وقت کب میرے اختیار میں ہے
گِردا گِرد آندھیاں ہیں محوِ رقص
چہرہ تو اُس کا اب غبار میں ہے

0
23
تیرا جہان اور ہے میرا جہان اور ہے
جو ڈھونڈتا ہوں میں یہاں وہ آسمان اور ہے
جو زندگی سمجھ رہا یہ زندگی تو وہ نہیں
سنی تھی تو نے بھی مگر یہ داستان اور ہے
تو مضطرب ہے آخرت کی پوچھ گچھ سے ڈر نہیں
تجھے بتا دوں یہ نہیں وہ امتحان اور ہے

21
یہاں پہ قرب میں سارا ملال رکھا ہے
ہر ایک رشتے میں آہن کا جال رکھا ہے
خوشی کی حرص میں کیوں لوگ بھول جاتے ہیں
خدا نے درد میں کتنا جمال رکھا ہے
وہ جب گیا تو سبھی کچھ وہ لے گیا میرا
بس اُس کا درد ہی اِس دل میں پال رکھا ہے

0
26
دل و دماغ پہ شاہدَ کو اعتبار نہیں
وہ اپنی روح میں تم کو بسا کے رکھتا ہے

0
28
لگا نہ وقت ذرا بادہ خوار ہونے میں
لگے کا وقت عبادت گزار ہونے میں
وہ بے قرار ہے کتنا تباہ کرنے میں
سمے تو چاہیے اب تار تار ہونے میں
یہ آب کھیتوں کو زرخیز جا کے کرتا ہے
کہ فائدہ ہی نہیں کوہسار ہونے میں

0
28
جو جہاں پر چاہیے تھا وہ وہاں پر تھا نہیں
اب وہ پہنچا ہے وہاں لیکن وہاں پر میں نہیں

0
15
فرض کرو یہ مندر مسجد اصل میں سب مے خانے ہوں
فرض کرو یہ شیخ و برہمن مے کے ہی دیوانے ہوں
فرض کرو کے بھیس بدل کر رام نگر میں پھرتا ہو
فرض کرو کے ملا ہو ہم سے ہم ہی ناں پہچانے ہوں
فرض کرو اس دین دھرم کا ہم نے ڈھونگ رچایا ہو
فرض کرو یہ وید اور گیتا جھوٹ ہوں سب افسانے ہوں

0
43
نصیب میں وہ مرے رات لکھتے جاتے ہیں
ہمیشہ درد کی سوغات لکھتے جاتے ہیں
ہر ایک جرم کی تردید کر رہا ہوں میں
مگر وہ کھاتے میں اثبات لکھتے جاتے ہیں
بہا کے لا رہیں طغیانیاں پہاڑوں کو
فرشتے روز کی برسات لکھتے جاتے ہیں

0
28
سیڑھیاں چڑھ چڑھ کے ہم تو تھک گئے
کیوں طلوع اب تک نہیں ہم ہو سکے

0
17
ابھی تو بھول نہ پایا تھا میں جوانی کو
کہ موڑ دے دیا اس نے مری کہانی کو
وہ کہہ رہا تھا وہ دیوانگی سے خائف ہے
میں کیسے روکتا جذبات کی روانی کو
میں کچھ بھی کر لوں مجھے چھوڑ کر نہیں جاتا
میں کیسے گہرا کروں اس کی بدگمانی کو

0
40
کیوں بچھڑنے کا خوف طاری ہے
وہ ابھی تو مجھے ملا ہی نہیں

0
23
بے چین سا پھرتا ہے پریشان سا کیوں ہے
تو اپنے ہی گھر میں یہاں مہمان سا کیوں ہے
صحرا میں جو رونق تھی یہاں کب ہے میسر
یہ شہر ہمارا بڑا ویران سا کیوں ہے
بہتا رہا خس کی طرح تو سیلِ بلا میں
پھر بھی تو ابھی تک بڑا نادان سا کیوں ہے

0
23
لوگ بس بات بنانے کے لیے نکلے ہیں
ہم پہ جگ کو وہ ہنسانے کے لیے نکلے ہیں
ہم تو سمجھے تھے کہ وہ آ کے تسلی دیں گے
یار و اغیار ستانے کے لیے نکلے ہیں
اپنے گھر میں جو لگی ہے وہ تو بجھنے سے رہی
شہر کی آک بجھانے کے لیے نکلے ہیں

0
38
جنوں میں اب کوئی انکار نہیں چاہتا میں
راستے میں کوئی دیوار نہیں چاہتا میں
اس نے کرنا ہے تو اب تھوڑے سلیقے سے کرے
پیار میں اب دلِ بیزار نہیں چاہتا میں
کون کہتا ہے فقط میں نے خوشی ہی مانگی
سچ تو یہ ہے گلِ بے خار نہیں چاہتا میں

31
آسماں میں جھانک کر دیکھا کہ تارے ہیں کثیر
کس قدر وسعت جہاں میں اور میں کتنا حقیر
آدھی دنیا گھوم کر آواگون کچھ یوں ہوا
میں سمجھتا تھا کہ سب کچھ ہے مگر نکلا فقیر
اب سمجھ آیا جو کرنا تھا وہ کیوں ناں کر سکا
میں کہاں آزاد تھا میں تو یہاں تھا اک اسیر

0
26
عجیب زندگی ملی
رکاوٹیں تھیں ہر طرف
یہ جسم کی جو قید تھی
میں اس سے اب نکل گیا
میں اب زماں مکاں سے دور
کہیں پہ لا مکاں میں ہوں

0
53
میری نظر میں لعل و گہر سب حقیر ہے
جس دل میں پیار ہے وہی سچ میں امیر ہے
لوگوں کے اس ہجوم میں تنہا بہت ہوں میں
لیکن مرے وجود میں اک جم غفیر ہے
واعظ مجھے ڈرا نہیں دوزخ کی آگ سے
میرا تو راہبر مرا اپنا ضمیر ہے

0
33
تلاش منزلِ عرفانِ ذات کیا کرتا
میں اپنے درد میں مقصد تلاش کرتا ہوں

0
24
جہاں میں جبر ہے کچھ اختیار ہے ہی نہیں
مگر میں اپنی کہانی کا آپ خالق ہوں

0
23
اپنے دل کا کیا کروں کیا کر رہا ہے آج کل
پیار سے تیرے مگر یہ ڈر رہا ہے آج کل
روح داخل ہو رہی ہے جسم میں واپس مرے
میرے اندر جو خلا تھا بھر رہا ہے آج کل
اندر آنے کی اجازت آج تک دی ہی نہیں
پر تجھے پانے کی خاطر مر رہا ہے آج کل

0
30
سارے جہاں کا ایک گنہ گار مجھ میں ہے
منٹو زدہ سا ایک قلم کار مجھ میں ہے
میں اس کو مانتا بھی تو کس طرح مانتا
اپنی بھی ذات سے کہیں انکار مجھ میں ہے
کوشش کے با وجود بھی ہم اجنبی رہے
شاید کہیں چھپی ہوئی دیوار مجھ میں ہے

24
اے بت تراش سوچ لے
یہ سرمئی چٹان جو
تو کاٹ کر پہاڑ سے
بڑی ہی مشکلوں سے پھر
یہاں اٹھا کے لایا ہے
طلوعِ آفتاب سے

0
33
ڈر ڈر کے زندگی کو یوں ناں ناگوار کر
کچھ ایسا کر کہ زندگی کو یادگار کر
زخموں سے روشنی کے لیے راہ گز بنا
تو پیار کر کے دل کو ابھی سے فگار کر
آدم کی سر کشی کا کیوں الزام اس کے سر
حوا کی بیٹیوں کا تو اب اعتبار کر

0
35
نیند کوسوں دور تھی گو وقت وہ سونے کا تھا
دربدر پہلے سے تھے اب غم اسے کھونے کا تھا
بادباں بھی اب نئے تھے اور ہوا معقول تھی
امتحاں سب سے بڑا اس سے جدا ہونے کا تھا
آج تک اس دل کی دھڑکن کان تک پہنچی نہیں
آج یہ عقدہ کھلا اس کا بھی دل سونے کا تھا

0
31
مری اداسیوں کا کچھ تو اب خیال کرے
کلام کا ہی کوئی سلسلہ بحال کرے
اسے کہو کہ وہ اب رنج بانٹ لے مجھ سے
اسے کہو مجھے اپنا شریکِ حال کرے
جواب دے کے اگر ٹوٹ جاؤں رنج نہیں
اسے کہو کہ بہت سخت اب سوال کرے

0
29
مجھے یہ لعل و گہر مشتِ خاک لگتے ہیں
یہ زندہ لوگ بہت چاک چاک لگتے ہیں
میں اپنی عمر کے لوگوں سے دور رہتا ہوں
مجھے جنازے بڑے درد ناک لگتے ہیں
مجھے شروع ہی سے تنہایاں تھیں راس بہت
یہ دل کے رشتے مجھے اشتراک لگتے ہیں

0
7
52
مری شناخت کیا ہے ؟ کیا کوئی بتائے گا ؟
دقیق راز سے پردہ کوئی ہٹائے گا
سیاہ رات نے گھیرا ہے کتنی صدیوں سے
جو سو رہے ہیں انہیں کون اب اٹھائے گا
یہ رات کٹ بھی گئی اور رات آئے گی
اندھیری رات میں رستہ کوئی سجھائے گا

0
34
قاتل جو تھا مرا وہی میرا گواہ تھا
کتنے عجیب لوگوں سے میرا نباہ تھا
منزل ابھی بعید تھی پر زادِ رہ گیا
چوروں کا سرغنہ جو مرا سربراہ تھا
راتوں کو جس کا خوف جگاتا رہا مجھے
دن کو اسی کے ساتھ مرا رسم و راہ تھا

0
38
مسکرانے لگی ہے خاموشی
دل لبھانے لگی ہے خاموشی
دل میں جیسے ہی ان کی یاد آئی
گنگنانے لگی ہے خاموشی
دل کی دھڑکن ذرا ٹھہر جا تُو
کچھ بتانے لگی ہے خاموشی

0
27
یہاں ہم بے زباں بیٹھے ہوئے ہیں
کہ ہم نوکِ سناں بیٹھے ہوئے ہیں
جنہیں سونپا گیا فرضِ حفاظت
جہاں تھے ہم وہاں بیٹھے ہوئے ہیں
مصاحب شاہ کے کیوں آج دیکھو
ہمارے درمیاں بیٹھے ہوئے ہیں

0
37
جو کام ہم نے کیے ہیں ان پر
خدا ہمیں بخش دے گا شاید
جو کام ہم نے کیے نہیں ہیں
وہی ہماری سزا بنیں گے

0
23
زندگی برباد کرنے کے لیے
ایک ہی لمحہ ہمیں درکار ہے

0
17
مصائب اب یہاں بیٹھے پسِ دیوار ہر جانب
جہاں دیکھو نظر آتا ہے اب سالار ہر جانب
ہمارا جب بھی دل ٹوٹا بس اتنا ہی ہوا آخر
ہماری روح میں اونچی ہوئی دیوار ہر جانب
اب انساں کی مہارت ہو گئی بے سود کیا کیجے
خدائی پھر رہی ہے آج کل بیکار ہر جانب

0
36
بہت ہے جبر اس جہاں میں لیکن جو ہو سکے اختیار رکھنا
میں تم سے اب یہ نہیں کہوں گا کہ مجھ پہ تم اعتبار رکھنا
یاں خود فریبی کا بھی اثر ہے اور اس پہ یاداشت مختصر ہے
جو ظلم میں نے کیے ہیں تم پر ہمیشہ ان کا شمار رکھنا
سنو صدا جو تمہارے دل کی یہ ابتدا ہے یہ انتہا ہے
زمانہ تم کو کہے گا کچھ بھی نہ اس پہ تم اعتبار رکھنا

0
33
اب کہاں اختیار میں دل ہے
حسرتِ نو بہار میں دل ہے
ان سے امید اب وفا کی نہیں
ان کے قول و قرار میں دل ہے
وعدہ کر کے کبھی نہ آئیں گے
بس یونہی انتظار میں دل ہے

0
26
ویرانئ حیات سے ہستی نہیں رہی
ساقی تری شراب میں مستی نہیں رہی
افراطِ زر بھی بڑھ گیا قحط الرّجال بھی
پیتے تھے جو شراب وہ سستی نہیں رہی
ہر شہر اجنبی ہوا اور لوگ اجنبی
سودائیوں کی اب کوئی بستی نہیں رہی

0
28
جَذْبات کا فرات ابھی ہے ابھی نہیں
دل کی یہ واردات ابھی ہے ابھی نہیں
موقع ہے پیار کا ابھی اظہار کر ہی دیں
ان کا یہ التفات ابھی ہے ابھی نہیں
رفتار گردشوں کی بہت تیز ہو گئی
کیسا حصارِ ذات ابھی ہے ابھی نہیں

0
28
لوگ تھے بے مثال ماضی میں
ہم بھی تھے با کمال ماضی میں
دائرہ بڑھ گیا جہالت کا
تھے ہزاروں سوال ماضی میں
کیا بتاؤں سبب تباہی کا
چل گیا تھا وہ چال ماضی میں

2
41
تمہارے ساتھ بھی اب دل لگا کر دیکھ لیتا ہوں
جو غم دل میں چھپا ہے وہ بتا کر دیکھ لیتا ہوں
ملے جو غم محبت میں انہیں اب بھولنا ہو گا
محبت کا نیا اک گیت گا کر دیکھ لیتا ہوں
گرانا ہو گا اب ٹوٹے ہوئے خوابوں کو آنکھوں سے
تمہارے خواب اب دل میں بسا کر دیکھ لیتا ہوں

26
روز مرہ کی زندگی شاہدؔ
مجھ کو سالم نگل گئی آخر

17
عقل کے ناخن ذرا لے اور من مانی نہ کر
اب سبا آزاد ہے اب تُو سلیمانی نہ کر
تنکا تنکا جوڑ کر تعمیر یہ بستی ہوئی
روک دے ان بارشوں کو یوں فراوانی نہ کر
تو چلا جائے گا تو خاموشیاں رہ جائیں گی
جتنا رک سکتا ہے رک جا گھر میں ویرانی نہ کر

0
30
نجانے خوف کیوں اترا ہے آسمانوں سے
فرار میں ہیں پرندے کیوں اب اڑانوں سے
سزا ملی ہے یہاں خواب دیکھنے کی بھی
اتار لائے ہیں خود کو بڑے نشانوں سے
نجانے کیوں یہاں خاموشیاں مقدر ہیں
نجانے قہقہے غائب ہیں کیوں مکانوں سے

0
34
ملگجی ملگجی شام کے آسماں
پر ہزاروں پرندوں کو گھر لوٹتا
دیکھ کر یہ سماں سخت حیران ہوں
کیا عجب نظم ہے کیسی ترتیب ہے
کیا کسی کو کسی سے رقابت نہیں
کیا کسی کو کوئی ناگہانی ضرورت نہیں

0
50
گرا کے ہر روز خود کو پھر ہم نئے سرے سے اٹھا رہے ہیں
پسِ غبارِ عذابِ تعمیر خود سے بھی ہم چھپا رہے ہیں
یہ دل پگھل کر لہو ہوا ہے لہو بہاتے ہیں کاغذوں پر
ورق وہی ہیں جہاں سے پڑھ کر یہ شعر تم کو سنا رہے ہیں
شریکِ احساس کون ہو گا کسے دکھائیں گے زخم اپنا
یہاں پہ ہر شخص اجنبی ہے سو زخم اپنا چھپا رہے ہیں

0
30
دل میں کسی کے درد بسائے نہ پھر کبھی
ہم نے کسی کے ناز اٹھائے نہ پھر کبھی
اب پڑ گئیں ہیں گوشہ نشینی کی عادتیں
قصے تمہارے بعد سنائے نہ پھر کبھی
آنگن میں ہر طرف ہے ابھی کیکروں کا راج
موسم کے پھول ہم نے لگائے نہ پھر کبھی

0
23
میں اس کو بات یہ کب سے بتانے والا تھا
سفر جو طے کیا کافی تھکانے والا تھا
پلٹ کے دیکھے بنا موڑ مڑ گیا میں تو
مجھے لگا کہ وہ مجھ کو بلانے والا تھا
اسے یہ شک کہ سبب آج کی لڑائی تھی
مرا یہ زخم تو کافی پرانے والا تھا

0
28
آتش کدے کی ٹھنڈی اب راکھ ہو گئے ہیں
پتھر تھے ہم پگھل کے اب خاک ہو گئے ہیں
ڈوبے تو ہم کہاں پر بس چند آنسوؤں میں
اندھے کنویں میں گر کے تیراک ہو گئے ہیں
حالات کوزہ گر تھے اور چاک تھا بھنور میں
کچھ خاص بن نہ پائے چالاک ہو گئے ہیں

0
25
ہماری راہ میں آ کر دیا جلا دیتے
یہاں سے کوچ کا تھوڑا تو حوصلہ دیتے
غمِ فراق ہمارا بھی ہم سفر ہوتا
ہمیں عقب سے بس اک بار تو صدا دیتے
معاف کر کے گلے سے ہمیں لگا لیتے
ہمیں نجات کا کوئی تو راستہ دیتے

0
26
یہ آرزو تھی مگر ہم نے بھی پکارا نہیں
ہمیں یقین تھا وہ شخص اب ہمارا نہیں
ہر اک قدم پہ وہ مڑ مڑ کے دیکھتا ہے مجھے
اب اس کا دیکھنا کوئی بڑا اشارہ نہیں
وہ ایک وقت تھا ہم دیکھ دیکھ جیتے تھے
اب اس کو سوچنا اک پل کو بھی گوارا نہیں

0
25
تجھ کو ہر موڑ پہ ہم لوگ دکھائی دیں گے
مانگ کے دیکھ تجھے آج خدائی دیں گے
چند لمحوں کے لیے خود کو تو اب سونپ ہی دے
تجھ کو ہر سوچ میں ہم آج سجھائی دیں گے
اتنا آساں نہیں یہ ہاتھ جھٹک کر جانا
صور پر بھی تجھے ہم ہی تو سنائی دیں گے

28
میری یادوں کی کلی دل میں چٹکتی ہو گی
کوئی تو شام مرے نام مہکتی ہو گی
کیوں میں یہ کہہ نہ سکا اس سے محبت ہے مجھے
مری آواز گلے میں ہی اٹکتی ہو گی
سوچتا ہوں کہ سبب ترکِ تعلق کیا تھا
کوئی تو چیز افق پار چمکتی ہو گی

33
دکھ تو ہوتا ہے دیکھ کر اُن کو
ظلم کیوں ہے یاں ناریوں پہ روا
جانے کب سے تلاش کرتی ہیں
جستجو میں وہ گوتموں کی ہیں
کیسے کہہ دوں کہ میں ہراساں ہوں
ڈر ہے میں توڑ دوں نہ دل اُن کا

0
18
عجیب طرز کے اپنے یہاں حساب ہوئے
ہم ان کی بزم میں ہر بار لا جواب ہوئے
زیاں بہت ہوا حالات کے بگڑنے سے
یہ فائدہ ہوا ہمدرد بے نقاب ہوئے
سنا تھا موت کی تنہائیاں سبب ہوں گی
جو استوار تعلق ہوئے عذاب ہوئے

0
27
ہمیں تم پر بھروسہ تھا
بہت آسان تھا جاناں
ہماری جان لے لینا
ہمیں بس یہ بتا دیتے
تمہیں رستہ بدلنا ہے
تو کیا ہم سانس لے پاتے ؟

0
18
شام کے مُرْدے کو کَب تَک روئِیں گے شاہدؔ یہاں
زندگی کے پیڑ کی شاخوں سے لپٹی ہے خزاں

0
25
وہ کون لوگ تھے جن کو یہ زخم بھرنا تھا
خوشی کی رُت میں پھر اس روح میں اترنا تھا
کنول کا پھول تھے ہم کو کہاں تھا یہ معلوم
کہ جوہڑوں میں ہی رہ کر ہمیں نکھرنا تھا
سمجھ رہے تھے کہ ہم بار بار آئیں گے
پتہ چلا کہ بس اک بار ہی گزرنا تھا

0
28
اک پل کا بھی مجھے وہ سہارا نہ دے سکا
اک سانس چاہیے تھا ادھارا نہ دے سکا
دامن میں کہکشائیں سمیٹے ہوئے تھا وہ
مجھ کو وہ ایک ٹوٹتا تارا نہ دے سکا
طغیانیوں سے مجھ کو بچایا نجانے کیوں
ساحل پہ لا کہ مجھ کو کنارا نہ دے سکا

0
48
واضح تھا اتنا زخم دکھانا نہیں پڑا
قصہ شکست کا بھی سنانا نہیں پڑا
جاتے سمے وہ گھر کو جلا کر چلا گیا
اجڑا دیار ہم کو بسانا نہیں پڑا
ایسا وہ حادثہ تھا کہ آواز چھن گئی
اس کو پلٹ کے پھر کبھی آنا نہیں پڑا

0
40
آنکھیں تو کھلی ہیں کوئی بیدار نہیں ہے
یاں میرے سوا کوئی گنہ گار نہیں ہے
کہتا تو ہے مرتا ہے محبت میں وہ میری
پر میری محبت اسے آزار نہیں ہے
اب اس کی محبت کا مجھے کیسے یقیں ہو
کیسی وہ محبت ہے جہاں خار نہیں ہے

0
22
رنگ موسم کے بدلتے ہی اتر جاتے ہیں
لوگ ملتے ہیں گھڑی بھر میں بچھڑ جاتے ہیں
گھر سے ہر صبح نکلتے ہیں نئے خواب لیے
بیچ کر خواب یونہی شام کو گھر جاتے ہیں
درد کے مارے حرم کو تو نہیں جائیں گے
پھر بھی کیوں پوچھتے ہو روز کدھر جاتے ہیں

29
وہ نرم مجھ میں نشانہ تلاش کرتا ہے
وہ دل پہ داغ پرانا تلاش کرتا ہے
بہت دنوں سے میں خاموش ہوں مگر پھر بھی
لڑائی کا وہ بہانہ تلاش کرتا ہے
ذرا سی بات یوں پھیلی ہے آگ کی مانند
زمانہ اس میں فسانہ تلاش کرتا ہے

0
37
جو جل رہا تھا آخری دیا اسے بجھا گیا
وہ گھرسے جاتے جاتے در کو قفل بھی لگا گیا
بہت گھنے سے پیڑ کے تنے پہ اس کا نام تھا
وہ اس شجر کی ٹہنیوں کو آگ ہی لگا گیا
فلک سے تارا ایک بھی میں توڑ کے نہ لا سکا
مروتوں کا بوجھ اُس کا ، سر مرا جھکا گیا

0
27
دن کو بچھڑے ہوئے غم رات میں آ جاتے ہیں
درد اجداد کے بھی ساتھ میں آ جاتے ہیں
دور رہنے کی قسم ہر دفعہ ٹوٹی ہم سے
ایسے مجبور کہ جذبات میں آ جاتے ہیں
جوش آتا ہے کہ کر جائیں بڑا کام کوئی
جلد ہی لوٹ کے اوقات میں آ جاتے ہیں

2
35
بلا رہی تھی کہیں سے مجھے صدا اس کی
ابھی تو بھول نہ پایا تھا میں جفا اس کی
کچھ اتنے پیار سے وہ جھوٹ بول جاتا تھا
نجانے کیوں مجھے بھاتی تھی یہ ادا اس کی
وفا کے باب میں کچھ بھی نہیں لکھا اس نے
مرے کیوں پاؤں کی زنجیر تھی وفا اس کی

28
روح سے اترنے میں دیر کتنی لگتی ہے
تتلیاں پکڑنے میں دیر کتنی لگتی ہے
زندگی کی منزل وہ بن گیا تھا لمحوں میں
روح میں اترنے میں دیر کتنی لگتی ہے
وہ ابھی گیا ناں تھا پر یہاں پہ میں ناں تھا
آدمی کے مرنے میں دیر کتنی لگتی ہے

0
47
اس نے کیسی مجھے سزا دی
لفظوں سے دیوار اٹھا دی
ہاتھ میں میرے زہر تھما کر
لمبی عمر کی ساتھ دعا دی

0
20
میں تو نکلا تھا ڈھونڈنے مرکز
ساری دنیا میں گھوم کر آیا
پر کہیں بھی ٹھہر نہیں پایا
آج میری تلاش ختم ہوئی
اصلی مرکز مجھے سمجھ آیا
میرا مرکز تو میرے اندر تھا

0
14
اک اور سال زندگی کا اب گزر گیا
میں اس سفر پہ دائمی آنکھوں سے تر گیا
صحرا نورد میں بنا بس بھوک کے لیے
یہ پیٹ تو بھرا نہیں پر میرا سر گیا
اب حال یہ ہے خود کو بھی پہچانتا نہیں
دیکھا جو آج آئینہ میں خود سے ڈر گیا

0
239
جب سے ہوش سنبھالا
آئینہ تو دیکھا ہے
خود کو پر کبھی بھی میں
دیکھ ہی نہیں پایا
ماسک ہی نظر آیا
عمر ایک گذری ہے

0
28
فاصلے جو ہوتے ہیں
فاصلے ہی رہتے ہیں
دوریاں جو ہوتی ہیں
دوریاں ہی رہتی ہیں
جسم پاس آنے سے
فاصلے نہیں بٹتے

0
30
اب اپنی جان سے بے زار ہو گئے ہم تو
خود اپنی راہ کی دیوار ہو گئے ہم تو
جو ہنس کے ملتے تھے وہ اب نظر چراتے ہیں
وہ کہہ رہے ہیں کہ آزار ہو گئے ہم تو
اکیلے بیٹھ کے اب انتظار کرتے ہیں
نہیں ہیں دوست اب نادار ہو گئے ہم تو

0
58
دکھ نہیں کہ کل یہاں ہوں گا بھی یا میں نہیں
دکھ یہ ہے کہ بِن جیے زندگی گذار دی

0
26
عمر گذری مری کتابوں میں
لوگ مجھ سے ملے حجابوں میں
میں تو بس سر جھکا کے چلتا رہا
ناں گناہوں میں ناں ثوابوں میں
زہد سے بھی نہ کچھ ملا مجھ کو
نہ ہی بہکا کبھی شرابوں میں

25
مری روح کا آخری خواب ہو
مری زندگی کا بڑا باب ہو

0
25
عمر گذری مری کتابوں میں
لوگ مجھ سے ملے حجابوں میں
میں تو بس سر جھکا کے چلتا رہا
ناں گناہوں میں ناں ثوابوں میں
زہد سے بھی نہ کچھ ملا مجھ کو
ناں میں بہکا کبھی شرابوں میں

1
104
تم یہ کوشش کرو
خواب مرنے نہ دو
خواب مر جائیں تو
وہ پرندہ ہو جو
اُڑ نہ پائے کبھی
پر ہوں ٹوٹے سبھی

0
26
یقین پیار میں نہ تھا میں خود سے بھی خفا رہا
میں کچھ نہ کر سکا یہاں نجانے کیوں ڈرا رہا
ٹھہر سکا نہ کوئی یاں پہ آندھیوں کی راہ میں
مگر میں اس کے پاؤں میں زمین پر پڑا رہا
سنا تو تھا انا کی جنگ میں ہارنا ہی ہے لکھا
نجانے کیوں پھر آج تک خودی پہ میں اڑا رہا

40
سوال ہی سوال تھے جواب مانگنے لگے
چبھا جو ان کو سچ بہت سراب مانگنے لگے
سنا تو تھا طمع کی کوئی حد نہیں زمین پر
سفر کا رخت لوٹ کر وہ خواب مانگنے لگے
شباب میں شباب کا خیال ہی نہیں رکھا
شباب جب چلا گیا شباب مانگنے لگے

3
68
میں گم گیا تھا کبھی خود کو پھر ملا ہی نہیں
بس ایک زخم تھا جو آج تک سلا ہی نہیں
مجھے تلاش تھی اک شخص کی جو کامل ہو
مگر وہ شخص کبھی آج تک ملا ہی نہی
میں اعتماد کے قابل نہیں ہوں اس نے کہا
جہاں کہا تھا مجھے اس نے میں ہلا ہی نہیں

0
43
ہنستی آنکھوں میں خونِ جگر بھر لیا ہنستے ہونٹوں کو اشکوں سے تر کر لیا
غم ہمیں چھو کے گزرا نہیں تھا کبھی عشق میں ڈوب کر سر بسر کر لیا
بے مزہ زندگی کا سفر جب لگا راستے کو بہت پر خطر کر لیا
گھر کی مایوسیوں سے جو نالاں ہوئے میکدے کو ہی پھر اپنا گھر کر لیا
ہم ترستے رہے پر ملی ناں کبھی ان کی جانب سے کوئی بھی اچھی خبر
کان میں ٹھونس لیں انگلیاں اور پھر خود کو ہم نے یہاں بے خبر کر لیا

0
36
اوروں کے زخم کے نشاں تک بھی نہیں رہے
خود کو دیئے جو زخم وہ اب تک نہیں بھرے
ہم پر شریف ہونے کی پرچی چپک گئی
کثرت سے سوچتے رہے کچھ کر نہیں سکے
وہ آنا چاہتا ہے پلٹ کر ہمارے پاس . .
لیکن جو پہلے ہم تھے وہ اب ہم نہیں رہے

0
45
بہت وسیع تھا پاتال اس لیے شاہدؔ
پھلانگ ہی نہ سکا دل میں خوف اتنا تھا

0
29
میں نے یہ کب کہا کہ تُو فکرِ معاش کر
سب کام چھوڑ چھاڑ کے خود کو تلاش کر
اب وقتِ انقلاب ہے تو سوچ کو بدل
ماضی کے جتنے بت ہیں تُو سب پاش پاش کر
تُو رک گیا تھا اور سمے آگے نکل گیا
رُخ دیکھ کر ہوا کا تو اپنی تراش کر

55
میں گھر سے نکلا تھا خواب لے کر
میں راستے میں بھٹک گیا ہوں
جنم جنم کا تھا میں شرابی
بس اک جھلک سے بہک گیا ہوں

0
39
طالبِ علم طلب گار ہی رہ جائے گا
پانے والا ہی سبھی راز یہاں پائے گا
جھوٹی امید بہت درد کا باعث ہو گی
چاند تارے وہ کبھی توڑ نہیں لائے گا
اس سے بچھڑے ہیں تو یہ وہم ہمیں لاحق ہے
ہم نہ ہوں گے تو وہ اب ظلم کہاں ڈھائے گا

0
41
فیصلے دل کے غلط ، مان لیا ہے شاہدؔ
فیصلے عقل کے کب ٹھیک ہوا کرتے ہیں

0
24
جل کر یہاں پہ لوگ تو کندن کے ہو گئے
ہم کیا جلے ہمارے تو سائے بھی جل گئے

0
35
بس ایک پل کا سفر ہے دوام تھوڑی ہے
یہ زہر کا ہے پیالہ یہ جام تھوڑی ہے
میں روز اپنی عدالت میں پیش ہوتا ہوں
بہشت کے لیے یہ اہتمام تھوڑی ہے
ملا نہ شغل کبھی جس سے عشق ہو مجھ کو
کہ جس میں دل نہ لگے اب وہ کام تھوڑی ہے

0
39
وہ ہی ہوتا ہے جو ہوا ہو گا
کیوں سمجھتے ہو کچھ نیا ہو گا
اس کی خوشبو ہوا میں پھیلی ہے
اس گلی میں کہیں رہا ہو گا
اس کا چہرا اجاڑ لگتا ہے
جب سے بچھڑا ہے اب ہنسا ہو گا

34
نرم ہو جاؤں نہ تو وقت کڑا رہنے دے
کھینچ ناں تیر یہ سینے میں گڑا رہنے دے
اتنی مہلت نہ ملی میں کہ خزاں تک رکتا
میں بہاروں میں جھڑا ہوں تو جھڑا رہنے دے
اب تو ہونے میں نہ ہونے میں کوئی فرق نہیں
تو مجھے ریت کے صحرا میں گڑا رہنے دے

0
35
سارا چکر ہی خواہشوں کا ہے
سُکھ نہ مانگو تو دُکھ نہیں ملتے
منزلوں پر کبھی نہیں پہنچے
اپنے رستے کبھی نہیں چلتے
آگ سے بچ کے ہم نکل آئے
آنسو رکتے تو آگ میں جلتے

0
44
میں خواب میں زندہ رہتا ہوں
جب آنکھ کھلے مر جاتا ہوں

0
28
زندگی کو سیکھنے میں زندگی گذار دی
شاعری کیا سیکھتے یاں وقت ہی نہیں ملا

0
27
شخص ڈھنگ کا کبھی ملا ہی نہیں
کیسے جینا تھا کچھ پتا ہی نہیں
گمشدہ وقت کے سمندر پر
ایسی کشتی کہ ٭ناخدا ہی نہیں (٭ملاح
زندگی بھی عجب پہیلی ہے
راز ہم پر کبھی کُھلا ہی نہیں

0
28
سلامتی کا انہیں اب گُمان دینا ہے
ابھی تو سر پہ انہیں سائبان دینا ہے
یہاں پہ محنتوں پہ پھل کبھی نہیں آتا
یہ روح بیچ کے ان کو جہان دینا ہے
وہ نا سمجھ ہیں ابھی تک کھلونے مانگتے ہیں
انہیں خرید کے یہ آسمان دینا ہے . .

0
36
میں خوابوں سے لڑتا رہا آج تک
میں سایوں میں چھپتا رہا آج تک
میں سوتے میں چلتا رہا آج تک
لگا تار موسم بدلتا رہا
سمے کا سمندر بھی چلتا رہا
ہوا اس طرح زندگی کھو گئی

0
48
روح زخمی جب ہوئی اس سے جدا رہنے لگے
پہلے اس سے تھے خفا سب سے خفا رہنے لگے
زندگی آہستہ آہستہ سمٹتی ہی گئی
رات دن پھر خود میں ہی ہم مبتلا رہنے لگے
جستجو آغاز میں تھی علم کی ہم کو بہت
بعد میں ہر چیز سے نا آشنا رہنے لگے

0
43
زخم تھا روح پر سلا ہی نہیں
کیوں لگا راز یہ کھلا ہی نہیں
خود ہی ڈھونڈے ہیں راستے میں نے
خضر کوئی کبھی ملا ہی نہیں
آگ کندن بنا کے چھوڑے گی
آج تک اس طرح جلا ہی نہیں

39
اس کو کب سے میں نے پلکوں پہ بٹھا رکھا ہے
پاؤں اس کے میں زمیں پر نہیں آنے دیتا

0
29
وہ خدا ہے تو زمیں پر نہیں آنے دیتا
خاک پھر خاک نشیں پر نہیں آنے دیتا
اس نے ہر بار ہی توڑا ہے بھروسہ میرا
پھر بھی سایہ میں یقیں پر نہیں آنے دیتا
ظلم سہتا ہوں میں چپ چاپ شکایت کے بغیر
ایک بل بھی میں جبیں پر نہیں آنے دیتا

0
43
وہ خوشی کا رنگ بھی جھڑ گیا
تیرا غم بھی مجھ سے بچھڑ گیا
وہ جو رشتہ صدیوں بُنا یہاں
وہ بس اک بحث میں اُدھڑ گیا
مرے پاس تھا تو نجانے کیوں
مرا اس سے فاصلہ بڑھ گیا

0
36
گرا ہوں جب بھی کبھی اُٹھ کے دوڑ پڑتا ہوں
میں بُھر بُھرا سہی ٹوٹا نہیں ابھی تک میں

0
30
ہماری راہ میں کوئی شجر نہیں آتے
خبر یہ پہلے سے ہوتی ادھر نہیں آتے
ہم اپنے سر میں بہت آگ لے کے پھرتے ہیں
مگر یہ شعلے کسی کو نظر نہیں آتے
مہیب صحرا سے زندہ نکل کے آئے ہیں
نظر اسی لیے اب بحر و بر نہیں آتے

45
میرے حق میں جو شہادت ہو مٹا دیتا ہے
مجھ کو ناکردہ گناہوں کی سزا دیتا ہے
ظلم سہنے کی اب عادت سی ہوئی ہے ایسی
اس کا ہر ظلم عجب مجھ کو مزا دیتا ہے
دن میں تو خواب دکھاتا ہے سہانے مجھ کو
رات کو آنکھ لگا لوں تو جگا دیتا ہے

0
40
قدم قدم پہ یہاں پر کیوں جال رکھا ہے
ہر ایک لب پہ یہاں یہ سوال رکھا ہے
امیرِ شہر پہ بے انت رحمتیں برسیں
غریبِ شہر کو کیوں پائمال رکھا ہے
نہ مہر ہے نہ محبت نہ ہی وفا نہ گلہ
لہو کا رنگ نجانے کیوں لال رکھا ہے

40
بھیک مانگی تھی بس محبت کی
کاسہ نفرت سے بھر دیا اس نے
وہ نہیں مانتا کہ اس نے دیا
روح کا زخم پھر دیا کس نے
مرا احساس میرا قاتل ہے
مجھ کو مارا ہے بس مری حس نے

0
1
94
تم ہار گئے شرط کہ توڑو گے جفا سے
اس بار مجھے توڑ کے دیکھو تو وفا سے
سرکش ہوں جھکوں گا نہ کبھی جبر کے آگے
شاید تمہیں مل جاؤں میں اس بار دعا سے
جو بھی ملا مجھ کو مجھے دھوکے ہی ملے ہیں
شکوے مجھے لوگوں سے شکایت ہے خدا سے

0
34
رنجشیں ان سے پالتے ہی نہیں
شکوے اب ہم اچھالتے ہی نہیں
ہر گھڑی رنج و غم تعاقب میں
اور ہم ہیں کہ ٹالتے ہی نہیں
زخم دل میں سمیٹ لیتے ہیں
درد باہر نکالتے ہی نہیں

44
وہ میرا پیار ہے کُل کائنات تھوڑی ہے
رضا کا ربط ہے قیدِ حیات تھوڑی ہے
بس ایک باب کا عنوان ہی محبت ہے
تمام عمر کی یہ واردات تھوڑی ہے
تمام رشتے یاں اب موسموں کی زد میں ہے
کسی لگاؤ کو یاں پر ثبات تھوڑی ہے

0
55
ہوس ہے جسم کی اس میں محبتیں کیسی
گھڑی ہیں لوگوں نے دیکھو حکایتیں کیسی
جدا تھے ان سے تو ملنے کو ہم تڑپتے تھے
ملے تو جاگ اٹھی ہیں عداوتیں کیسی
چلو یہ مان لیا سچ تھا جو کہا تم نے
یہ دل تو ٹوٹ چکا ہے وضاحتیں کیسی

0
48
قابل تو تھا مگر کبھی موقع نہیں ملا
پچھتاوں کے سوا مجھے حاصل نہ کچھ ہوا
کیوں حوصلہ شکن ہی مقدر میں تھے مرے
جس کا بھی ہاتھ پکڑا اسی نے تباہ کیا

0
42
جہاں پہ ہم تھے وہاں پر قیامتیں تھیں بہت
اکال* اِس طرف اور اُن کو راحتیں تھیں بہت
امیرِ شہر پہ اس کی نوازشیں تھیں بہت
خدا سے اس لیے مجھ کو شکایتیں تھیں بہت
کسی نے لوٹا وطن پر کسی نے مذہب پر
اسی لیے تو یہاں پر مصیبتیں تھیں بہت

0
47
تو ہے شمشیر بکف سانس پہ ہے ضبط مجھے
ایک بھی آہ نہ نکلے گی ذرا وار تو کر

33
تجھ سے مل کے میری سوچیں سوگوار ہو گئیں
مسکراہٹیں کیوں دکھ سے ہمکنار ہو گئیں
مجھ میں تھیں جو خوبیاں وہ خامیوں میں ڈھل گئیں
خامیاں جو تھیں مزید آشکار ہو گئیں
راکشس کو نیند سے نجانے کیوں اٹھا دیا
خواہشیں میری تمام داغدار ہو گئیں

50
جسم میرا خاک تھا پھر خاک ہو کر رہ گیا
نام پتھر پر کھدا تھا نام ہی بس رہ گیا
کیسے کیسے نامور تھے خاک میں زم ہو گئے
اک قلندر خامشی سے کان میں یہ کہہ گیا
میں کھڑا تھا جن کی خاطر سنگ انہی ہاتھوں میں تھے
سیلِ غم کے سامنے تو میں اسی دن ڈھ گیا

0
62
میں ایک دن تجھے اتنی بڑی سزا دوں گا
تجھے نظر سے سرِ عام میں گرا دوں گا
نہ کرنا یاد کرانے کی کوششیں مجھ کو
برے دنوں کی طرح میں تجھے بھلا دوں گا
ہمارے پیار کے قصے سنائے جاتے ہیں
میں ان کو داستاں عبرت کی اک بنا دوں گا

0
48
وہ پیار کرتا ہے لیکن فدا نہیں ہوتا
وہ روز لڑتا ہے پھر بھی جدا نہیں ہوتا
ہے استوار تعلق اسی کی شرطوں پر
اگر کہوں بھی تو مجھ سے خفا نہیں ہوتا
عجیب اس کی طبیعت میں چڑچڑا پن ہے
وہ تلخ رہتا ہے کچھ بھی ہوا نہیں ہوتا

0
46
اپنی مردانگی کو آج ڈبویا جائے
بیٹھ کے دریا کنارے کہیں رویا جائے
میں نے بچپن سے پیے غم مگر اب سوچتا ہوں
بھر گیا ہوں کہاں اب ان کو سمویا جائے
داغ دامن پہ لگے ہیں نہیں دکھتا کچھ بھی
خوب مل مل کے اسے اچھے سے دھویا جائے

32
پوری زمین پر کوئی اس سے بھلی نہیں
اس کی گلی سے خاص یاں کوئی گلی نہیں
یادیں تھیں یا کتاب تھی دیمک زدہ کوئی
مٹی کے جیسے بُھر گئی لیکن کھلی نہیں
اچھا تھا اس کا فیصلہ جو چھوڑ کر گئی
مٹی میں میرے ساتھ یاں وہ بھی رُلی نہیں

47
آنکھ سے آنکھ ملانے کی ضرورت کیا ہے
دردِ دل پھر سے جگانے کی ضرورت کیا ہے
میرے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں
میں خفا ہوں تو منانے کی ضرورت کیا ہے
فیصلہ ترکِ تعلق ہے بتاؤ تو سہی
راز یہ مجھ سے چھپانے کی ضرورت کیا ہے

69
آب و دانہ تیرا بھی ہے میرا بھی
وہی نشانہ تیرا بھی ہے میرا بھی
دیمک جس کی بنیادوں کو چاٹ گئی
اس میں ٹھکانہ تیرا بھی ہے میرا بھی
گھر کا بوجھ بہت ہے میرے کاندھوں پر
یہی بہانہ تیرا بھی ہے میرا بھی

45
دِکھے جو آنکھ سے زخم نہیں ہے
جو لفظوں میں بیاں ہو غم نہیں ہے

0
38
وہ میرے ساتھ ہے محرم نہیں ہے
وہ میرے زخم کا مرہم نہیں ہے
مجھے اس سے محبت ہے مگر کیوں
وہ سب کچھ ہے مرا عالم نہیں ہے
میں پیدا دکھ کے موسم میں ہوا تھا
خوشی کا راس اب موسم نہیں ہے

72
نفرت کے کئی تیر اب سینے میں جڑے ہیں
بھائی بھی مرے آج مجھی سے ہی لڑے ہیں
سُولی پہ جو لٹکا تو کوئی ساتھ نہیں تھا
اب تخت پہ بیٹھا ہوں تو سب ساتھ کھڑے ہیں
قسمت کا شجر دیکھ کے صدمے میں ہوں اب تک
قسمت کے سبھی پتے تو پہلے سے جھڑے ہیں

44
گرہ یہ آج تک کبھی کسی سے بھی کھلی نہیں
سمجھ نہیں سکا کوئی یہ راز راز ہی رہا
یہ قسمتوں میں تھا لکھا کہ کاوشوں کے باوجود
کبھی نہ فاش ہو سکا یہ بھید کائنات کا

0
30
مجھے دن بھر یہ دوزخ پیٹ کا مصروف رکھتا ہے
میں انگاروں پہ سوتا ہوں گلہ ہے یہ مرا شب سے

33
اپنے ہونے کی سزا کاٹ رہا تھا کب سے
بڑھ گیا درد ہوئی مجھ کو محبت جب سے
میرے اندر سے کوئی سُر نہیں نکلا اب تک
کرچیاں چپکی ہوئی کیوں ہیں نجانے لب سے
ان اجالوں سے کبھی غم کے سوا کچھ نہ ملا
تلخیاں بڑھنے لگی ہیں ابھی میری شب سے

56
زندگی کی رائیگانی کا ملال کیوں نہیں
رائیگاں نہ تھی تو اب یہ باکمال کیوں نہیں

0
42
مجھے ایک پل بھی سکوں نہ تھا وہ حریفِ جاں میرے گھر میں تھا
مجھے اس سے کچھ بھی گلہ نہیں "وہ تو خود فنا کے سفر میں تھا"
میری منزلیں کہیں کھو گئیں میرے خواب مجھ سے جدا ہوئے
میری عمر گردِ سفر ہوئی میں ہمیشہ راہ گزر میں تھا
مجھے وقت دیتا رہا صدا میں نہ سن سکا نہ سمجھ سکا
نہ تھا قسمتوں میں لکھا ہوا کہیں شور میرے ہی سر میں تھا

0
44
اب شام ڈھلی بڑھنے لگے رات کے سائے
میں سو کے اٹھوں گا کوئی یہ آ کے بتائے
پرکھے گئے کرگس کے ہی معیار پہ ہم تو
شاہین تھے وہ ہم کو سمجھ ہی نہیں پائے
بے ضبط رہی ہم سے محبت کی گواہی
آنسو کبھی میں نے کبھی اس نے بھی چھپائے

1
46
سوکھے درخت پر ہی فقط آشیاں رہا
لیکن مرے وجود میں آتش فشاں رہا
ڈر تھا کہ جل نہ جائے یہ خود سے ہی زندگی
یہ خوف بس تمام عمر ناگہاں رہا
رشتے تمام مٹھیوں کی ریت ہو گئے
تتلی تو اُڑ گئی مگر اس کا نشاں رہا

1
76
ہمت مری دیکھی ہے ضرورت نہیں دیکھی
دیکھی ہے شکایت مری غربت نہیں دیکھی
قابیل ہوں لایا وہی جو تھا مرے بس میں
دیکھی ہے علامت مری نیت نہیں دیکھی
فرض ایک بھی اب تک میں نبھا ہی نہیں پایا
صورت مری دیکھی ہے ندامت نہیں دیکھی

51
لمحۂ ناگوار باقی ہے
آخری اس کا وار باقی ہے
نہ مسافر نہ منزلوں کے نشاں
اب فقط رہ گزار باقی ہے
وہ تو آ کر چلا گیا کب سے
اس کا اب انتظار باقی ہے

43
کیا ملا آ کے مجھے کوچۂ رسوائی میں
فاصلے بڑھتے گئے ان سے شناسائی میں
گر میں ڈوبا ہوں تو ساحل پہ نہ ڈوبا ہوں گا
کوئی جا کے مجھے ڈھونڈو ذرا گہرائی میں
سچ سے چھلنی ہوئے لوگوں کی جو حالت دیکھی
اعتبار اٹھ گیا ہر طرح کی سچائی میں

44
کاش ہاتھوں کی جگہ پاؤں اچھالے جاتے
پاؤں کٹتے تو مرے پاؤں کے چھالے جاتے
جن پہ احسان کیے وہ ہی فریبی نکلے
اس سے بہتر تھا یہاں سانپ ہی پالے جاتے
اس سے پہلے کہ وہ یہ لفظ چبھوتا دل میں
کانوں میں پگھلے ہوئے سیسے ہی ڈالے جاتے

47
اک طرف زندگی محال بہت
اور خوابوں پہ ہے کمال بہت
اک طرف جوش ہے امنگوں کا
اور پھر بھوک سے نڈھال بہت
بارشیں رحم کی نہیں رکتیں
اک طرف قہر اور زوال بہت

44
تم تو خوابوں کی بات کرتے ہو
بس سرابوں کی بات کرتے ہو
زندگی اس طرح نہیں کٹتی
تم کتابوں کی بات کرتے ہو
میں نے اپنے بچھڑتے دیکھے ہیں
"تم عذابوں کی بات کرتے ہو"

3
100
دل کے زخموں سے خون رسنا تھا
دل کے زخموں سے شاعری ٹپکی

36
خزاں کے موسم میں میں نکھر کے بہار میں میں جھڑا ہوا ہوں
میں خود سے لڑتا رہا ہوں اب تک ابھی خدا سے لڑا ہوا ہوں
مجھے یہ لگتا تھا میں سکندر ہوں آدھی دنیا کو مات دوں گا
جہاں چلا تھا وہیں پہ پہنچا ہوں سر جھکا کے کھڑا ہوا ہوں
مرے قبیلے کے سب پرندے ہمیشہ رہتے تھے ہجرتوں میں
کسی سفر میں بچھڑ کے ان سے زمین پر میں پڑا ہوا ہوں

56
میں سر اٹھا کے چلوں اس لیے بنا ہی نہیں
میں وہ درخت ہوں جس کا کوئی تنا ہی نہیں
کئی سبب ہیں یہاں پر مری تباہی کے
مری تباہی میں شامل فقط انا ہی نہیں
تباہ کرنے پہ آؤں تو میں سکندر ہوں
تمام عمر مگر دل میں کچھ ٹھنا ہی نہیں

50
کہا ہے جو بھی کبھی اس نے وہ سنا ہی نہیں
میں پیار کے لیے شاید کبھی بنا ہی نہیں

0
32
اک اشارے سے ہی ہم بات سمجھ لیتے ہیں
وہ کہیں دن کو بھی ہم رات سمجھ لیتے ہیں
جنگ اندر کی کبھی ان سے چھپا ہی نہ سکے
دیکھ کر چہرا مرے جذبات سمجھ لیتے ہیں
اپنی سادہ لوحی پہ سخت ہنسی آتی ہے
جنبشِ لب کو ملاقات سمجھ لیتے ہیں

0
68
طبلے کی تھاپ پر اسے دیکھا جو محو رقص
پتھر اچھالنے لگے پاگل سمجھ کے لوگ

0
41
پلاؤ حلوا اڑا کے ناصح
مجھے خدا سے ڈرا رہا تھا
جنم جنم کا میں بھوکا پیاسا
خدا کو کیسے میں جان پاتا
میں دال روٹی سے آگے شاہدؔ
کبھی بھی کچھ بھی نہ سوچ پایا

0
37
اگر محبت ہے جنگ کیوں ہے
اب اس کے ہاتھوں میں سنگ کیوں ہے
اگر تو کٹنا ہی ہے مقدر
پتنگ آخر پتنگ کیوں ہے
کوئی بھی رشتہ نبھا نہ پائے
لہو کا پھر سرخ رنگ کیوں ہے

0
44
نئی لڑائی کوئی اب نہیں لڑی جائے
سکوں سے بیٹھ کے اب بات بس سنی جائے
بہت گھمایا پھرایا ہے ہم نے لفظوں کو
جو دل میں بات ہے اب بات وہ کہی جائے
سکون ایک پل اک دوسرے کو کیا دیتے
اب ایک دوسرے کی جان بخش دی جائے

0
50