میں روز اپنی عدالت میں پیش ہوتا ہوں |
بہشت کے لیے یہ اہتمام تھوڑی ہے |
ملا نہ شغل کبھی جس سے عشق ہو مجھ کو |
کہ جس میں دل نہ لگے اب وہ کام تھوڑی ہے |
ہمارے درمیاں گہرا سکوت طاری ہے |
کلام ہے تو سہی پر کلام تھوڑی ہے |
ادھورا ہوں |
میں جب پورا ہوا |
اس دن |
خدا ہو جاؤں گا |
تم سے |
جدا ہو جاؤں گا |
خامشی جرم ہے کچھ بات سناتے رہیۓ |
آپ ناراض ہیں پر ہاتھ ملاتے رہیۓ |
پیار جو آگ کا دریا ہے کہاں پیار ہے وہ |
آپ اس راہ پہ بس ساتھ نبھاتے رہیئے |
آج وہ آئے نہیں بھول گئے ہوں گے شاید |
آپ کا کام بلانا ہے بلاتے رہیئے |
ایسی بھی کیا مجبوری انسان بنانا تھا |
پیدا کر کے پھر اس کو ہر وقت رلانا تھا |
کالی مٹی سے اس نے انسان بنایا تھا |
میں بھی پتھر لے آیا بھگوان بنانا تھا |
ابھی تو آنکھ کھلی تھی پر جانے کا وقت ہوا |
بھیجا کیوں جب اتنی جلدی واپس جانا تھا |
میں منکر ہو گیا پہچاننے سے |
اسے اب نارسائی کی سزا ہے |
کہاں جا کر چھپے ہیں دوست میرے |
مرا دشمن بچانے کو کھڑا ہے |
جو مجھ کو توڑنے آیا تھا شاہدؔ |
مرے قدموں میں وہ بکھرا پڑا ہے |