جو بات دل میں تھی اس کو بتا نہیں پایا
یہ گیت درد کا اس کو سنا نہیں پایا
میں گھر سے جاتے سمے یہ سوال پوچھوں گا
وہ اپنے دل میں مجھے کیوں بسا نہیں پایا
مرے خلاف زمانہ تھا پھر بھی زندہ تھا
میں گھر کے لوگوں سے خود کو بچا نہیں پایا
صدائیں دیتے ہوئے عمر کٹ گئی اپنی
مگر دریچہ کوئی بھی کھلا نہیں پایا
بھرا تھا روح کو زخموں سے میں نے خود شاہدؔ
نیا کوئی بھی زخم اب لگا نہیں پایا

0
4