| میں آج وقت کے ہاتھوں سے گرنے والا ہوں |
| میں ٹوٹ پھوٹ کے آخر بکھرنے والا ہوں |
| چھپا کے رکھا مجھے بادلوں نے کیوں دن بھر |
| یہاں پہ شام ہوئی ہے اترنے والا ہوں |
| مرے سکوت سے شک کیوں ہوا ہے لوگوں کو |
| میں اس مقام پہ آ کر سنورنے والا ہوں |
| جنم جنم کا میں اب بوجھ لے کے پھرتا ہوں |
| انہیں یہ خوف ہے اب بھی ، ابھرنے والا ہوں |
| خزاں رسیدہ درختوں پہ پھوٹنے کی سزا |
| بھری بہار میں شاہدؔ میں جھڑنے والا ہوں |
معلومات