میں بندھن سے کیسے رِہا ہو گیا
میں خود آج اپنی سَزا ہو گیا
جو وعدہ کیا تھا نِبھا ناں سکا
میں خود سے بھی اب بے وفا ہو گیا
مِرا نام ہی گونجتا تھا یہاں
میں اب بُھولی بِسری صدا ہو گیا
جو کہتا تھا میرے بِنا کچھ نہیں
وہ دشمن کا اب آشنا ہو گیا
محبت سمجھتا تھا اک کھیل ہے
مجھے ہار کر پارسا ہو گیا

0
14