نجانے خوف کیوں اترا ہے آسمانوں سے |
فرار میں ہیں پرندے کیوں اب اڑانوں سے |
سزا ملی ہے یہاں خواب دیکھنے کی بھی |
اتار لائے ہیں خود کو بڑے نشانوں سے |
نجانے کیوں یہاں خاموشیاں مقدر ہیں |
نجانے قہقہے غائب ہیں کیوں مکانوں سے |
ٹھہر گیا یہاں موسم کیوں بدگمانی کا |
بھروسے اٹھ گئے اپنوں کی اب زبانوں سے |
اب آ کے سر میں سمایا جنوں سمندر کا |
ہوا نے ہاتھ ملایا ہے بادبانوں سے |
سمے کو موڑنا ممکن کہاں ہے اب شاہدؔ |
نکل چکے ہیں سبھی تیر اب کمانوں سے |
معلومات