رشتوں کے بہروپ بدلتے ہیں
دکھ نئے سانچے میں ڈھلتے ہیں
اس کے سب الفاظ کھلونے ہیں
ان سے ہم دن رات بہلتے ہیں
پہلے دل سے گیت نکلتے تھے
اب تو بس ارمان نکلتے ہیں
آج ہمیں ہر حال پہنچنا ہے
پلکوں پر بس خواب مچلتے ہیں
سائے کی امید میں شاہدؔ ہم
ننگے پاؤں دھوپ میں چلتے ہیں

0
3