عمر گذری مری کتابوں میں
لوگ مجھ سے ملے حجابوں میں
میں تو بس سر جھکا کے چلتا رہا
نہ گناہوں میں نہ ثوابوں میں
رند ہو کے نہ کچھ ملا مجھ کو
نہ ہی بہکا کبھی شرابوں میں
چند ہی روز کی محبت تھی
چند لمحے رہا سحابوں میں
جو گذاری نہ جا سکی مجھ سے
وہ گذاری ہے میں نے خوابوں میں
درد کی داستان اتنی ہے
کٹ گئی عمر بس عذابوں میں
ہر گھڑی دکھ شمار کرتا ہوں
فائدہ اب نہیں حسابوں میں

0
59