Circle Image

Mahmood Ahmad

@cokar

جو جان بھی انہیں دے شیدا ہے مصطفیٰ کا
سامان زندگی کو آتا ہے مصطفیٰ کا
دوراں بصیرتوں کا کافور ظلمتیں ہیں
سورج حسین تر جو آیا ہے مصطفیٰ کا
چھایا ملے ہمیں گر کملی سے دلربا کی
پھر حشر تک یہ کافی سایہ ہے مصطفیٰ کا

0
2
فیاض در پہ آیا آواز دے سوالی
ارمان کی ہے برکھا لیکن ہے داماں خالی
کب چارہ گر ہے میرا تیرے سوا اے شاہا
کیا خوب خوب روضہ اعلےٰ ہے جس پہ جالی
ہے مشکلوں نے گھیرا منزل دراز تر ہے
داتا کرم ہو تیرا میرے شہا تو والی

0
6
مقدر ہو مولا مدینے میں جینا
جو لے جائے بطحا ملے وہ سفینہ
درِ مصطفیٰ پر فدا جان کر دوں
جو جبریل کو بھی ہے مرغوب زینہ
ہے بوسیدہ ناؤ کو تیرا سہارا
میں آؤں مدینے عطا ہو قرینہ

0
4
سدا دل سے نکلے یہ ہی اک صدا
کفِ پا سے سرمہ ملے مصطفیٰ
منور رکھے دل جمالِ نبی
کریما یہ ہی ہے گدا کی ندا
رہوں بن کے بردہ سخی آل کا
کروں جان اپنی انہی پر فدا

0
6
خلقِ خدا ہے نازاں سرکار مل گئے ہیں
خُلقِ عظیم آقا دلدار مل گئے ہیں
اُن کے گھرانے پر ہم کرتے ہیں جاں نچھاور
کچھ ساتھ عشقِ جاں سے سرشار مل گئے ہیں
بیمارِ عشق جاناں راضی ہیں اس عطا پر
بطحا سے ان حزیں کو اقرار مل گئے ہیں

0
5
سلطانِ جاں ہیں آقا، اس کی خوشی مجھے
میں ہوں غلام اُن کا، اس کی خوشی مجھے
نور و بشر میں الجھے، اس شان کو تو دیکھ
قادر کے ہیں وہ یکتا، اس کی خوشی مجھے
وہ راز دانِ حق ہیں، اُن کو خبر تمام
درجے ہیں اُن کے اعلیٰ، اس کی خوشی مجھے

0
5
دلبر حسین تجھ سا، کب تھا نہ ہے نہ ہو گا
فخرِ جمال ایسا، کب تھا نہ ہے نہ ہو گا
کونین والے لیتے، تجھ سے ہیں روپ شاہا
دے تجھ سے دان اعلیٰ، کب تھا نہ ہے نہ ہو گا
لیتے ہیں خیر تجھ سے، سلطانِ دہر سارے
ایسے خزانے والا، کب تھا نہ ہے نہ ہو گا

0
4
یوں فیض عام بخشا، خیر الانام نے
دیکھا فروزاں دن کو، ہستی تمام نے
واحد ہے ذاتِ باری، جو بے نیاز ہے
واضع کیا یہ نقطہ، اُن کے پیام نے
سرمایہ زندگی میں، یادِ نبی بنی
اس کو مگر سجایا، اُن پر سلام نے

0
8
ارمان کے ہیں طوفاں، اک تار داماں خالی
دربارِ مصطفیٰ میں، لایا ہے یہ سوالی
کب چارہ گر حزیں کا، سرکار کے سوا ہے
ہیں منجدھار گہرے، ناؤ نحیف ڈالی
ہے مشکلوں نے گھیرا، منزل کٹھن ہے میری
الطافِ حق کے قاسم، خیراتِ تو مثالی

0
4
قرآں میں جا بجا ہیں، ترانے حبیب کے
روشن سدا رہیں گے، زمانے حبیب کے
جاری ثنائے خواجہ ہے، اس کائنات میں
مضرابِ نبضِ خلق، بہانے حبیب کے
چومے قدم حضور کے، عرشِ عُلیٰ نے یوں
ثابت ہیں اوجِ لامکاں، جانے حبیب کے

0
4
حزیں دل ہے پروانہ سرکار کا
حبیبِ خدا پیارے دلدار کا
ہیں سائل جہاں سب نبی پاک کے
دَیالُو بھریں کاسہ سنسار کا
جمالِ نبی ہے رہی آرزو
اے مولا سوالی ہوں دیدار کا

0
3
اک آرزو اے مولا، لایا ہوں تیرے در پر
جلوہ جمالِ جاناں، ہو آنکھ کو میسر
عکسِ جمالِ یزداں، حسنِ حبیبِ رب سے
دل جان میرے داتا، کر دے سدا منور
وہ جلوہ گاہ سینا، سرمہ بنی ہے جس سے
اس دل کو، وہ عطا ہو، کیفِ جمالِ سرور

0
2
حبیبِ خدا وہ جو دلدار ہیں
جہانوں کے سلطان سرکار ہیں
سوالی ہیں اُن کے بنے تاجدار
گداؤں میں اُن کے یہ سنسار ہیں
نہیں ہیں وہ رکھتے مثیل و مثال
مہر کی مثل جن کے کردار ہیں

0
6
زہے شان ان کی زہے مصطفائی
بڑی ہیں جو لائے دہر میں بھلائی
ملا خُلقِ اعظم لقب ہے خدا سے
حرم کو نبی سے ملی ہے ضیائی
خدا سے ہے نعمت نبی بانٹیں اس کو
کلیدِ خزانہ نبی ہاتھ آئی

0
2
روپ سے جن کے رعنائی
فعل میں اُن کے دانائی
تابانی جو دیتے ہیں
حسن لے اس سے زیبائی
روضہ اُن کا شوق میں ہے
آنکھ ہے میری بھر آئی

0
3
مضرابِ تارِ زیست ترانے حضور کے
دائم رواں دہر میں زمانے حضور کے
حسن و جمالِ مصطفیٰ اوجِ کمال ہے
پنہاں خدا کے علم میں ٹھانے حضور کے
جب جستِ شوق نے کئے سب پار فاصلے
قوسین تک ہیں طے ہوئے آنے حضور کے

0
3
ہیں اقوال جن کے خدا سے وحی
ملے اُن سے منزل بھلی سے بھلی
جو باتیں ہیں اُن کی بڑی خوب ہیں
کرے یاد جن کی دلوں کو جلی
ہے عترت انہی کی دہر میں عُلیٰ
جری ان میں حیدر علی ہیں علی

6
حبیبِ الہ مصطفیٰ ہیں نبی
ملی جن کو کوثر خدا سے ملی
شجاعت کے پیکر ہیں یہ دلربا
سجے جن کے خاصوں میں حیدر علی
ہیں مولا کے احساں نبی جانِ ما
یہ جھولی ہے جن کے کرم سے بھری

0
5
آقا کریم میرے الطاف عام تیرے
سرور ہے تو دہر کا، اعلیٰ مقام تیرے
اے نعمتوں کے داتا فیضِ جلی کے قاسم
تیری عطا سے کھائیں سارے غلام تیرے
خُلقِ عظیم ہادی ماہِ مبین دلبر
گنجِ سخا خدا سے، شاہا مدام تیرے

0
2
آقا بنائیں بگڑی سیدھا ہو کام میرا
میں آل کا ہوں بردہ ادنیٰ غلام تیرا
حمدِ خدا کے ہمراہ جاری ثنا ہے تیری
اعلیٰ مقام والے چمکا ہے نام تیرا
نقطہ جہان سارے تیرے محیط میں ہیں
ہستی پہ سایہ ہر دم آیا دوام تیرا

0
7
ہر یاد میرے مولا اب معتبر رہے
من میں ہوں مصطفیٰ ہی چاہے جدھر رہے
زینت خیال کو دے نورِ جمالِ حق
لمحاتِ زندگی میں یہ ہی ڈگر رہے
خیر البشر بنے ہیں مقصودِ زندگی
رستہ یہ منزلوں کا آسان تر رہے

0
6
عطرِ حبیب سے ہے نکہت بھری فضا
خوشبو لئے جو آئی بطحا سے یہ ہوا
بابِ نبی ہے منبع فیضِ کثیر کا
گنجِ عطا سدا ہے جس جا کھلا ہوا
ذاتِ بزرگ و بالا بعد از خدا نبی
جن سے عیاں دہر پر ہے رمزِ لا الہ

0
4
خلق نورِ یزداں سے تعمیر ہے
جلی اس سے جس کی یوں تصویر ہے
اسی سے درخشاں ہوئے دو جہاں
لکھی ایسے قادر نے تقدیر ہے
ہے عکسِ جمالِ خدا جو جمیل
کمی کب ہے اس میں نہ تقصیر ہے

0
8
اے حُسنِ رُخِ جاناں دیوانہ بنا دینا
جلوے ہیں جو دلبر کے نظروں سے دکھا دینا
غمخوار سدا دیکھیں یہ عکسِ جمالِ ہو
جو پردے ہیں غفلت کے وہ سارے ہٹا دینا
چلوں راہِ فروزاں پہ عُقبٰی ہو میرا روشن
جزبہ ہے جو منزل کا ہر آن نیا دینا

0
6
یہ اوجِ فلک سے نظام آ گیا ہے
بلندی پہ ماہِ تمام آ گیا ہے
ہوا ذکر اونچا جہاں میں نبی کا
خدا سے جو اُن پر سلام آ گیا ہے
یوں احساں کیا ہے خدائی پہ رب نے
نبی اس میں خیر الانام آ گیا ہے

0
7
دیدار کا طالب ہوں سرکار مجھے دینا
اے حُسنِ رُخِ جانا دیوانہ بنا دینا
جلوے تیرے آنکھوں سے میں بھی کبھی دیکھوں
پردے ہیں جو غفلت کے وہ سارے ہٹا دینا
مجھے اپنہ محبت میں دلدار لگا دینا
بَن جائے گی یہ دنیا عُقبٰی بھی سنور جائے

0
9
لو ہاتف سے شاید پیام آ رہا ہے
لبوں پر صلاۃ و سلام آ رہا ہے
ہوا عطرِ دلبر مدینہ سے لائی
نبی کا زباں پر جو نام آ رہا ہے
ہے چھائی دہر پر گھٹا رحمتوں کی
گماں میں بھی اعلیٰ مقام آ رہا ہے

0
7
الطافِ کبریا سے جن پر کرم ہوا ہے
اُن کو حضورِ حق سے فیضِ اتم ملا ہے
مہرِ نبی سے سینہ ٹھنڈا کیا گیا وہ
عشقِ سخی جسے بھی گوہر حسیں ملا ہے
جو سرنگوں ہیں نوری آدم کے رو برو یوں
دیکھیں جبیں صفی کی کس نور سے ضیا ہے

0
5
جو آرزو ہیں مولا دارین میں ہیں برتر
اور جستجو ہے جن کی روشن ہیں اُن سے اختر
بے چینیاں جدا ہیں جو روندیں ما سوا ہیں
دیدار مصطفیٰ سے ہو جان و دل منور
عکسِ جمالِ یزداں حسنِ حبیب والا
ڈالے جو بے خودی میں دائم ملے یہ ساغر

0
8
مدینے سے خوشبو ہوا ساتھ لائی
معطر کرے جو خدا کی خدائی
فضائے مدینہ ہے پُر کیف ہر دم
یہ نکہت مدینے کو کس نے دلائی
لئے آس دل میں مدینے جو آیا
ملے دو جہاں میں اسے ہر بھلائی

0
6
بابِ عطا انہی پہ ہویدا کیا گیا
جن کا نبی کے فیض میں حصہ کیا گیا
ہستی خدا کے حکم سے آئی وجود میں
جس کا نبی کے نور سے اجرا کیا گیا
آدم جہاں میں دیکھئے آئے نہ تھے ابھی
پہلے انہیں نبی پہ ہے شیدا کیا گیا

0
7
جب تھا ارادہ رب کا جانا وہ جائے گا
عکسِ جمالِ جاں کو ظاہر کیا گیا
خیراتِ مصطفیٰ نے، پھر یوں کرم کیا
ہستی کو کبریا نے ادراک دے دیا
قالو بلیٰ خلق سے خالق نے سن لیا
پورا سنا دہر نے وعدہ الست کا

0
4
احساں خدائے پاک نے یوں عام کر دیا
دانِ نبی سے دہر کو حصہ ملا سوا
کن کے امر سے رونقیں آئیں وجود میں
نورِ مبیں سے دوراں ہے کونین کا چلا
اعلیٰ سجی جو گردوں میں تصویرِ کائنات
یہ واسطے نبی کے ہے کہتا ہے کبریا

0
8
خلقِ خدا پہ احساں ایسا کیا گیا
خیراتِ مصطفیٰ میں حصہ کیا گیا
اذنِ الہ سے ہیں ہستی کے رنگ و بو
نورِ نبی سے جس کا اجرا کیا گیا
دنیا میں آئے تھے کب آدم ابھی مگر
اول انہیں نبی پر شیدا کیا گیا

0
7
ہو عشق کا شرارہ جو ماسوا جلا دے
پھر شعلے اس سے مولا محبوب کو دکھا دے
زینت حزیں کے من کی الطافِ مصطفیٰ ہوں
ویراں پڑا ہے سینہ گلشن اسے بنا دے
ذکرِ نبی ہو میری ان خلوتوں کا یارہ
فدوی کو رازِ الفت مولا ذرا سکھا دے

1
13
لبوں پر نبی کی ثنا آ رہی ہے
جو سینے میں نوری ضیا لا رہی ہے
ہے مجلس پہ چھائی گھٹا رحمتوں کی
مدینے سے اس کو ہوا آ رہی ہے
عجب کیف میں ہر جہاں لگ رہا ہے
فضا مدحتِ مصطفیٰ گا رہی ہے

7
آمدِ سرکار سے ہیں جھومتے دونوں جہاں
وجد میں گردوں ہوا ہیں کیف میں یہ آسماں
مدحتیں مختار کی ہیں ساتھ ہے حمد و ثنا
استھاں ہیں مسرور تر ہیں رونقیں ان میں جواں
صد مبارک آمنہ ہے گود میں آیا یہ لال
جس نے خندہ کر دئے ہیں حشر تک سارے زماں

7
بڑی ضوفشاں یہ جہاں کی فضا ہے
لبوں پر دہر کے نبی کی ثنا ہے
شہے دو سریٰ کا ہے دنیا میں آنا
زمانے میں ڈنکا خوشی کا بجا ہے
صفِ انبیا سے ملی تھی بشارت
ہے ختم الرسل جو حبیبِ خدا ہے

10
حضورِ حق میں اے مولا خزیں فریاد لایا ہے
حسیں در مصطفیٰ کا ہے اسے جو یاد آیا ہے
یہاں محفل میں آقا کی کھڑا جبریل ہے جانے
مقامِ عبدُہُ کیا ہے جو مولا نے سجایا ہے
فروزاں ذرہ ذرہ ہے مقامِ طور کو دیکھیں
نبی کا دان نوری ہی تجلیٰ میں سمایا ہے

6
عطا میرے نبی کی ہے مدینے جو بلاتی ہے
نمی آنکھوں کو در ان کا محبت سے دکھاتی ہے
مدینہ ہی مدینہ ہے دہر میں جو حسیں تر ہے
مدینے کا ادب یارو کتاب اللہ سکھاتی ہے
مدینے سے خبر ہمدم فلاحِ انساں جاری ہے
سلیقے جس میں الفت کے محبت جس سے آتی ہے

9
فدائے سیدِ مرسل بڑے مسرور رہتے ہیں
وہ راضی بر رضائے حق خطا سے دور رہتے ہیں
شہے سلطاں کے نوکر ہیں نہیں دیگر سے کچھ ناطہ
پئے وہ جام وحدت کے زہے مخمور رہتے ہیں
نہیں فکریں انہیں رہتیں کسی امروز و فردا کی
مگر دامن ہمیشہ ہی عطا سے پور رہتے ہیں

8
اعلانِ کن کا مدعا محبوبِ رب صلے علی
یعنی حبیبِ کبریا مولائے من فضلِ الہ
اُن کے منور نور سے ہے، دو جہاں میں روشنی
ممنون ہے جن کی ضیا، وہ فیضِ حق شمسِ دُحیٰ
وہ جان، جانِ دو جہاں، وہ زینتِ کون و مکاں
جن سے ہیں دل کو راحتیں، وہ فرحتِ ارض و سما

7
میرے ہیں پیارے مصطفیٰ خستہ دلوں کا آسریٰ
کون و مکاں کی چاندنی اور نبضِ جانِ دوسریٰ
ان کے قدم سے ضوفشاں حسن و جمالِ دو جہاں
پرتو جمالِ کبریا ہے روپ جس سرکار کا
سلطاں سخی کی شان ہے ان سے بٹے ہر دان ہے
قاسم بنے جو خیر کے مختارِ من دلدارِ ما

7
لولاک امرِ کبریا سے تیرے ہیں دونوں سریٰ
آفاق کا بھی بُلبلہ، قطرہ ہے تیرے بحر کا
یہ جملہ ہستی کا حسن ہے پَرتو تیرے روپ سے
نورِ جمالِ دو جہاں اے زینتِ ارض و سما
خلقِ خدا ممنون ہے سرکار تیرے فیض کی
دارین کے اے دلربا چرچا ہے تیرے دان کا

19
نبی کی یاد والے دل غموں سے دور رہتے ہیں
قصیدے بنتے ہیں سمرن نگہ سے آنسو بہتے ہیں
حُبِ جاناں وہ شعلہ ہے جلا دیتا ہے سب دیگر
جو عشقِ یار میں گم ہے اسے مخمور کہتے ہیں
جہانِ دل میں ملتی ہے سدا محبوب کی الفت
وصالِ یار کی خاطر وہ دردِ دل کو سہتے ہیں

9
آغاز کی ہیں ابتدا صلے علٰی صلے علٰی
یعنی وہ حسنِ ما سوا دلدارِ حق سلطانِ ما
جن کے ورودِ پاک سے یثرب مدینہ بن گیا
اونچا ہے درجہ آپ کا آتا ہے جو بعد از خدا
جونور سے معمور تر ہے گلشنِ بطحا بنا
اس آمدِ سرکار نے ویرانہ جنت کر دیا

0
6
نغمات حسیں اُن کے جنہیں عشق سکھاتا ہے
انداز و قرینہ پھر انہیں فیض میں آتا ہے
اوصاف وہ دلبر کے جب آتے ہیں سمرن میں
دل خوشیاں مقدر کی سرِ عام مناتا ہے
جو ملتے ہیں طیبہ سے تاباں ہیں وہی رستے
طالب کو حسیں ہادی ہر شر سے بچاتا ہے

9
ہر آن ہیں دہر پر احسان مصطفیٰ کے
لیکن مزے ہیں دیگر دلدار کے گدا کے
عشقِ نبی ملا ہے مومن کو فیضِ یزداں
کیا دان کم ہیں ان سے بندے پہ کبریا کے
ڈنکے عُلیٰ خدا نے محبوب کے بجائے
قوسین میں ہیں رتبے، اس صاحبِ دنیٰ کے

5
دیارِ نبی گر ٹھکانہ ملا ہے
بڑی برکتوں کا خزانہ ملا ہے
جو روضے پہ اُن کے بلایا گیا ہے
اسے رفعتوں کا بہانہ ملا ہے
ملا ذکرِ دلبر اگر دل زباں کو
یہ فیضِ نبی کا ترانہ ملا ہے

8
نغمات حسیں تر کے عشاق نے گائے ہیں
جو جوش ہیں سینے میں اشکوں نے دکھائے ہیں
بیگانہ ہو من مولا پھسلاوے سے غیروں کے
دلِ خستہ کو تو نے ہی دلدار ملائے ہیں
بطحا ہے ہدف میرا بے بس ہوں کھڑا اس جا
ملنا ہے مجھے مولا بطحا سے جو آئے ہیں

7
کیا خوب ثنا اُن کی دل سوز میں گاتا ہے
جو یار کو بھاتا ہے وہ عشق سکھاتا ہے
آشا ہے جو سینے میں یہ اشک گواہی دیں
کب چاہوں میں وہ رستہ درِ غیر جو جاتا ہے
بیگانہ ہو من میرا ہر غیر کے لالچ سے
مجھے آس ہے رہبر کی جو یار ملاتا ہے

6
آمد ہے یہ دلبر کی آثار بتاتے ہیں
کس ناز سے دل والے اب خوشیاں مناتے ہیں
نازاں ہیں جہاں والے دلدار ملے رب سے
رحمت کے جو باراں ہیں وہ فاراں پہ آتے ہیں
مدحت ہے یہ سلطاں کی سُر تال جو امبر میں
ٹولے ہیں فرشتوں کے اک لے میں جو گاتے ہیں

6
یہ کتنی فروزاں جہاں کی فضا ہے
لبوں پر دہر کے حسیں کی ثنا ہے
جو دنیا میں آئے ہیں سلطاں جہاں کے
یہ مژدہ سہانا زماں نے سنا ہے
نبی تھے جو پہلے ملیں اُن سے خبریں
یہی ختمِ مرسل حبیبِ خدا ہے

7
سرکارِ دو عالم کے فیاض گھرانے ہیں
وہ دہر کے داتا ہیں سب ان کے خزانے ہیں
اے بادِ صبا لے جا دربار جہاں ان کا
کچھ باتیں جو کرنی ہیں کچھ شکوے سنانے ہیں
سر قدموں پہ گر آئے معراج ہے یہ میری
کچھ زخم دکھانے ہیں کچھ آنسو بہانے ہیں

6
نغمے حبیب کے من اک لے میں گا رہا ہے
دل بحرِ عشقِ جاں میں غوطے لگا رہا ہے
بیگانہ ما سوا سے کر دے اے میرے مولا
ہر غیر مجھ کو راہِ دیگر بتا رہا ہے
ٹھاٹھوں میں لگ رہا ہے قلزم کریم کا بھی
بطحا سے دل کو شاید پیغام آ رہا ہے

9
جانِ ہر دو سریٰ ابتدا آپ ہیں
دلربا آپ ہیں مصطفیٰ آپ ہیں
کن سے قدرت نے پیدا کئے دو جہاں
آن و بانِ غنیٰ مدعا آپ ہیں
وہ جو میثاق میں رب سے اقرار تھا
شانِ مجلس میں جاں مدعا آپ ہیں

6
یہ جو نسیمِ بطحا نازوں سے آ رہی ہے
عطرِ حبیبِ داور گلشن میں لا رہی ہے
اک تازگی عجب سی گل برگ میں ہے افزوں
منظر ورا خرد سے سب کو دکھا رہی ہے
باغِ لبیب منزل اعلیٰ ہے بلبلوں کی
جو خوشبو یار کی ہے ان کو ستا رہی ہے

1
15
ہوتے جو سنگِ در ہم بابِ حبیب کے
ہر روز چومتے پھر جوڑے لبیب کے
قسمت کے فیصلے ہیں مرضی کریم کی
سن بے نیاز مولا صدقے منیب کے
مٹ جائیں گھڑیاں ساری میرے فراق کی
سارے رواں نشاں ہوں ہجرِ زبیب کے

7
کرے یاد اُن کی دلوں کی دوا
کہے رحمتِ حق جنہیں خود خدا
جو سینہ ہے تاباں سدا دِکھ رہا
رہے یادِ جاں میں صبا و مسا
درود اُن پہ دائم صلاۃ و سلام
وہ مختارِ عالم وہ صلے علیٰ

4
ہے لگتی فضائے دہر آج نوری
ملا آمنہ کو گہر آج نوری
سماں یوں جو سارا سجایا گیا ہے
یہ دولہا جہاں میں بلایا گیا ہے
کیا جس نے زیر و زبر آج نوری
ہے لگتی فضائے دہر آج نوری

7
ملی ثنا حبیب کی ترانہ مل گیا
گزار دیں گے زندگی بہانہ مل گیا
ہے آخری ٹھکانہ گر مدینہ میں ملا
یہ جان لیں کہ خلد کا نشانہ مل گیا
یہ چھوڑ کر نہ آئیں گے گلی طبیب کی
وطن مدینہ پاک ہے یگانہ مل گیا

6
دانائے رمزِ لا الہ صلے علیٰ صلے علیٰ
محبوبِ ذاتِ کبریا صلے علیٰ صلے علیٰ
جان و جمالِ دو سریٰ صدرِ عُلیٰ بدرِ دجیٰ
زیبائشِ عرشِ خدا صلے علیٰ صلے علیٰ
مولائے من نورِ ہدیٰ داتا سخی عقدہ کشا
ہیں زینتِ ارض و سما صلے علیٰ صلے علیٰ

8
کوچے میں مصطفیٰ کے مولا ملے ٹھکانہ
جس جا حبیبِ تیرے اور آپ کا گھرانہ
شہرِ علم ہیں آقا بابِ علم علی ہیں
جاری خلق میں ہر جا حسنین کا ترانہ
نوری ردا ہے ان پر سرکارِ دو سریٰ سے
بی فاطمہ علی کا کنبہ ہے جو یگانہ

7
لایا حضورِ حق میں عاجز یہ التجا
مولا حبیب تیرے پیارے ہیں مصطفیٰ
ہے امتِ نبی پر آلام کی فضا
سوئے تونگر اس کے افسر ہیں لا دوا
آئی ہے قہر بن کر جو یورشِ عدو
ظالم بنے ہیں سبطی قبطی ہیں جانکاہ

9
روضہ رسول کا ہے عشاق کا نشانہ
ہر فیض کا یہ مخزن ہر خیر کا ٹھکانہ
نوری نگر مدینہ مقصودِ قلب و سینہ
جس کو سجائے پیارا سرکار کا گھرانہ
گر ہوتے طیبہ ہم، انصارِ مصطفیٰ میں
پھر دیکھتے مدینے سرکار کا زمانہ

8
کشور کشائے دو سریٰ دل جانِ من مختارِ ما
یا مصطفیٰ یا مصطفیٰ صلے علیٰ صلے علیٰ
تو رحمتِ دونوں جہاں اے سرورِ کون و مکاں
اے راحتِ قلب و نظر مولائے من یا سیدا
بے شک خلق میں خاص ہیں خالق کے سارے انبیا
اللہ نے تجھ کو جن لیا خاصوں میں اپنا دلربا

13
جو شہکارِ قدرت شہے دو سریٰ ہیں
وہ محبوبِ داور دہر کی بنا ہیں
صفِ انبیا میں وہ ہیں سب سے اولیٰ
وہ ہی ختمِ مرسل وہ صاحب دنیٰ ہیں
سدا گونجے ڈنکا جہانوں میں اُن کا
مدینے کے والی دہر کی ضیا ہیں

9
جانِ ہستی مصطفیٰ ہیں وجہہ کن صلے علیٰ
خبریں جن کی لے کے آئے پہلے تھے جو انبیا
ہے مدینہ تھا جو یثرب آمدِ سرکار سے
محزنِ جود و سخا یعنی حبیبِ کبر یا
آنکھیں بینا ہو گئیں ان کے لعابِ پاک سے
شمعِ حق پیارے مسیحا دردِ دل کی ہیں دوا

6
شہرِ نبی حزیں دل میرا رہا نشانہ
ملجا ہے جو دکھوں کا ماویٰ ہے اک یگانہ
دائم قیام مانگے شہرِ مدینہ میں من
اے کاش گزرے میرا اس شہر میں زمانہ
قدموں میں مُصطفیٰ کے بیتے یہ زندگی سب
حاصل رہے یہ مسکن جب تک ہے آب و دانہ

9
حق کی بشارت میرے ہیں سلطاں
رب کی عنایت میرے ہیں سلطاں
آنے سے اُن کے آنِ چمن ہے
یہ جانِ نزہت میرے ہیں سلطاں
یزداں سے رحمت صدقہ ہے اُن کا
مہر اور شفقت میرے ہیں سلطاں

9
وہی دعویٰ محبت کا سرِ بازار کرتے ہیں
نظر جن پر مدینے سے سخی سرکار کرتے ہیں
سدا ان کی بنے بگڑی رہیں وہ راہ سیدھی پر
نگہ اِن پر شہے والا ہزاروں بار کرتے ہیں
ملے مے ان کو بطحا سے پئیں کوثر وہ میداں میں
نبی بیڑا غلاموں کا بھنور سے پار کرتے ہیں

11
احساں ہیں رب کے پیارے نبی جی
مژدہ ہیں حق سے پیارے نبی جی
قصرِ دنیٰ ہے اُن کی منزل
سدرہ سے گزرے پیارے نبی جی
آنے سے اُن کے چمن میں رونق
دل جاں ہے صدقے پیارے نبی جی

16
عرشِ بریں پہ ہے، جن کا جانا
اُن کو کہیں سب شاہِ زمانہ
گھر میں بلائے مولا اُن کو
اوجِ فلک جس کا ہے ٹھکانہ
دیکھ دنیٰ میں رحمتِ باری
محبوب اُن کو رب نے مانا

9
فرمائے جن کو مولا خُلقِ عظیم ہیں
مومن پہ احساں رب کے آقا کریم ہیں
خلقِ خدا کے محسن سرکارِ دوسریٰ
خیرات میں جو دیتے خُلد و نعیم ہیں
حسنِ نبی سے پردہ میثاق میں اٹھا
مجلس نے دیکھے رب کے کیسے ندیم ہیں

12
حکمِ کُن خالق سے جو ہستی کو فرماں مِل گیا
فخر موجودات سے تب اس کو ساماں مِل گیا
حیراں سی وہ زندگی بے تاب تھی جو ہجر میں
دِل جلوں کے کارواں تھے خوب استھاں مِل گیا
رونقیں ہستی میں ہیں کونین کو ہے جاں مِلی
داریں کی اِس بزم کو ہے نورِ یزداں مِل گیا

17
سلاطیں کے داتا اے شاہوں کے شاہ
نبی پیارے سرور سخی مصطفیٰ
صدا حُب ہے تیری کرم ہو سخی
حسیں یادیں تیری دلوں کی شفا
یہ گردوں میں مستی ہے عشقِ نبی
روانی ہے جس میں نبی کی عطا

11
رحمت نے پکارا ہے سرکار کے کوچے میں
ہر دُکھ سے کنارہ ہے سرکار کے کوچے میں
کونین میں نِعمت ہے یہ بابِ سخا اُن کا
اچھا جو گزارہ ہے سرکار کے کوچے میں
پر نَم ہیں میری آنکھیں اشکِ ندامت سے
فرحت سے اشارہ ہے سرکار کے کوچے میں

18
ہجر کی سکت کب ہے بے چاروں میں
ملے ہیں حزیں آ کے غم خواروں میں
مدینے سے میرا بلاوا ہو گر
رکوں گا نہیں پھر میں بیماروں میں
دہر کا میں راندہ خسارے میں ہوں
کہاں ہوں کہیں بھی میں ہشیاروں میں

26
آثار یوں ہیں کہتے، تمہیں جاں بلا رہے ہیں
خوشیوں کی ہیں یہ خبریں، خوش ہیں بتا رہے ہیں
پُر کیف ہے پون، گلوں میں، عجب ہیں نکہتیں
درِ مصطفیٰ ہے منزل، سوئے طیبہ جا رہے ہیں
جائیں گے روضہ پہ ہم، سرکار کے ہیں بردے
ہٹ پہرے دارا، آقا! ہم کو بلا رہے ہیں

30
رحمت کے باراں لائے چاہت درود کی
اور خلد لے کے جائے چاہت درود کی
سینے میں دیکھ لو گے لائے جو یہ بہار
تاباں یہ دل بنائے چاہت درود کی
ڈالو گے پھر کمندیں تاروں کے پار بھی
یوں ولولہ دلائے چاہت درود کی

14
قطرے کو بحر کر دے صدقے حبیب کے
مولا یہ مِہر کر دے صدقے حبیب کے
ہے ظلمتوں نے گھیرا مقصود نور ہے
دل مثلِ مہر کر دے صدقے حبیب کے
مجھ میں سکت کہاں ہے نارِ سعیر کی
آسان حشر کر دے صدقے حبیب کے

22
ہے منزل مدینہ سنیں ساتھ آئیں
محبت سے نغمات دلبر کے گائیں
درود آئیں مولا سے ہر دم نبی پر
درودوں سے ہم بھی لبوں کو سجائیں
خدا کو جو بھائے ادائے نبی ہے
مدینے جو جائیں وہ بگڑی بنائیں

23
دلِ ما سوالی کرم مانگے شاہا
خزیں کو ملے تیرے در سے بلاوا
سدا ہجر تیرے میں بیمار ہے من
ہے دیدارِ روضہ مرض کا مداوا
ملیں نعمتیں رب سے صدقے میں تیرے
تجھے خیر کا رب نے قاسم بنایا

18
سوالی ہیں مانگیں کرم تیرے شاہا
چلا آئے بطحا سے جلدی بلاوا
جو حِجرِ نبی میں ہیں بیمار رہتے
یہ بھی دیکھیں جلدی سے روضہ تمہارا
رواں ہے جو گردوں ہیں برکات تیرے
سخی جانِ عالم کرم کا تو دریا

21
دل میرے میں ہیں کچھ نالے
تیرا کرم ہو کملی والے
ڈولے امت کی اب ناؤ
مانگیں کرم سخی رکھوالے
آقا زور میں ہے طغیانی
لاگے جان کے ہیں اب لالے

33
ہم جنوری کے آخر بطحا کو جا رہے ہیں
دل بستہ راز ہے، میری جاں بتا رہے ہیں
یہ شہر ہے مدینہ خوشیاں منا رہے ہیں
نغماتِ دلبری ہیں لب پر سجا رہے ہیں
صلے علیٰ محمد اب وردِ جان و دل ہے
خدمت میں مصطفیٰ کی دل شاد جا رہے ہیں

20
﷽ﷺ
جو انبیؑائے حق کا واحد امامؐ ہے
آتا درودِ ربی اُنؐ پر مدام ہے
مختار پیارے آقؐا جو بانٹتے ہیں خیر
کرتا جہانِ کن سب اُنؐ کو سلام ہے
خلقِ خدا ہے تاباں اُنؐ پر درود سے

16
پورا جہانِ کن ہے مداحِ مصطفیٰ
تحفے میں حسن جس کو آقا سے ہے ملا
منشائے ایزدی تھی پہچانِ ذات ہو
نورِ نبی سے قصہ اس نے رواں کیا
سب رونقیں چمن کو دیتے ہیں مصطفیٰ
فیضِ قدیر سب کو آقا سے مل گیا

18
ڈنکا دہر میں جس کا بالائے بام ہے
وہ نام ہے محمد جس پر سلام ہے
آقا نبی ہیں میرے سب سے کریم تر
ملتا سبوئے وحدت جن سے تمام ہے
لاکھوں درود اُن پر ربِ رحیم کے
خلقِ خدا سے جن پر آتا سلام ہے

19
مدینے آن پہنچے ہم
پڑھیں صلے علیٰ باہم
پیارے ہیں یہاں منظر
سہانہ ہے بڑا موسم
وہ سینے میں جو چھالے تھے
لگی اُن پر ہے اب مرہم

16
دل میں سدا ہے آرزو طیبہ سے ہو بلاوا
ماویٰ جہاں ملے گا ہوتا ہے جس جا ملجا
بارِ دگر میں دیکھوں روضہ حبیبِ رب کا
مولا تیرے فضل میں ہر غم کا ہے مداوا
کر دے کرم کریمی قادر ہے تو خدایا
تیرا کرم سدا ہستی کو اُن سے آیا

31
یوں ڈنکا نبی کا بجایا گیا ہے
جہاں کو کراں تک سجایا گیا ہے
دہر میں جو آئیں گے سب سے حسیں ہیں
یہ نبیوں سے اعلاں کرایا گیا ہے
مناظر جہاں کے مکمل ہوئے تھے
انہیں بزم میں پھر بلایا گیا ہے

15
نامِ نبی سے جس نے من کو سجا لیا ہے
یادِ حسیں سے دل میں دیپک جلا لیا ہے
پھر روپ اس دہر کے لگتے ہیں سارے مدھم
ذکرِ نبی کو ہی گر سمرن بنا لیا ہے
شہرِ نبی سے نکہت تسکیں بنے گی دل کی
عفریتِ نفس کو گر تو نے گرا لیا ہے

20
اک عاجزانہ مولا میری ہے یہ دعا
حسنِ جہان دیکھوں دربار ہو سجا
پھر بھول جاؤں دنیا اپنی خبر نہ ہو
لرزے میں دل ہو میرا بولوں نہ کچھ ذرا
میرا جو حال آنسو بھی کہہ سکیں وہاں
ان کو ادب میں روکوں ساکت رہوں کھڑا

22
رہی ہے لبوں پر سدا یہ دعا
کہ در پر بلائیں مجھے مصطفیٰ
دکھائیں گے روضہ نبی جی تمہیں
ہمیشہ ہے دل نے مجھے یہ کہا
میں نامے سے اپنے زیاں کار ہوں
شہے دوسریٰ دیں مجھے آسرا

26
اے مولا یہ دل سے سدا ہے دعا
نشہ مانگے یہ من حسیں دید کا
نہ ڈھونڈوں حسن یہ کہیں اور میں
کہ یکتا ہیں دلبر نبی مصطفیٰ
ستاروں کے جھرمٹ حسیں کائنات
حسن دانِ دلبر سے سب کو ملا

24
یہ عشقِ نبی جس کسی کو ملا ہے
وہ جانے کہ گنجِ گراں مل گیا ہے
ملی کامرانی اسے دو جہاں میں
خدا کی عطا سے وہ بخشا ہوا ہے
مراتب ہیں اعلیٰ ملے اس کو رب سے
ملی اس کو زینت ملا کبریا ہے

22
سنیں عشقِ احمد دلوں کی ضیا ہے
یہ مومن کو زیور خدا سے ملا ہے
جو گردوں ہے دوراں یہ عشقِ نبی ہے
جہانِ خلق سب نبی پر فدا ہے
گدا مصطفیٰ کے جہاں کل دہر میں
ملا جس کو جو بھی انہی سے ملا ہے

15
بلائیں وہ در پر کریں سب دعا
ہے عترت کے صدقے میں سنتا خدا
ہیں فیاض آقا سخی بادشاہ
گریں ان کے در پر کریں اب ندا
نبی جانِ عالم ہیں سلطانِ ما
ملے جن کے در سے دلوں کو جلا

22
وہ آئے دہر میں جو سب سے حسیں ہیں
یہ مرسل خدا کے شہے مرسلیں ہیں
ملیں جن کو شانیں سوا کبریا سے
وہ ختم الرسل ہیں شہے عالمیں ہیں
دنیٰ میں جو آقا ہیں قوسین والے
وہ محبوبِ رب ہیں وہ سوزِ یقیں ہیں

22
جو دیدارِ حسنِ اتم مانگتے ہیں
گدائے نبی ہیں کرم مانگتے ہیں
درِ جانِ جاں کا ہو دیدار حاصل
مدد پیارے شاہِ امم مانگتے ہیں
کریں وقف جینا نبی کے لئے ہم
چلیں جن کے نقشِ قدم مانگتے ہیں

19
شرف، میرے مولا گدا کو عطا ہو
حزیں کا مدینے میں رہنا سدا ہو
کہاں چین دن میں نہ آرامِ شب ہے
نظارے سے جالی کے دکھ کی دوا ہو
کرم آئے تیرا جو سب سے ورا ہے
خدایا یہ راضی نبی کا گدا ہو

53
تیرے کرم، سدا ہیں نرالے، پوری امت کے رکھوالے
ہر بگڑی کو تیرے سنبھالے، آقا کالی کملی والے
چندہ سورج کی جو ضیا ہے، تیرے نور نے دان کیا ہے
تیرے نور سے نور ضیا لے، تیرے نور کے سارے اجالے
تیری بزم پیا نورانی، تیری سب سے بڑی سلطانی
اے دلدار مزمل والے، میری طشت میں خیر اب ڈالے

18
اعلیٰ رکھا خدا نے جن کا مقام ہے
اُن پر خدا سے آتا ہر دم سلام ہے
سب انبیا کے وہ ہی واحد امام ہیں
فیضِ کثیر جن کا ہستی پہ عام ہے
خیر الوری حبیبی سرکارِ دو سریٰ
ذکرِ جمیل جن کا بالائے بام ہے

19
مولا نظر سے دیکھ لوں یہ، اپنے حال میں
ہیں گم خیال ہو گئے، اُن کے جمال میں
منظر میں دیکھوں خیر، سے جانِ جمال کو
یہ حسن پھر نہ ڈھونڈوں، کسی اور لال میں
وہ جالیاں حسین جو، میرے گماں میں ہیں
مانگے نظارے حُسن کے، عاصی سوال میں

16
ناموں میں نام آعلیٰ نامِ حبیب ہے
خاصوں میں خاص رتبہ مقامِ حبیب ہے
مانا کہ قولِ شاہ ہے سلطانِ قیل و قال
اعلیٰ کلام سب سے پیامِ حبیب ہے
ارفع ہے ذکرِ مصطفیٰ دونوں جہان میں
پہنچا خدا کے عرش پہ گامِ حبیب ہے

48
یہ زندگی اے مولا دلبر کے نام ہو
آلِ نبی پہ ساری میری تمام ہو
سبطین مصطفیٰ کا عکسِ جمال ہیں
دائم درودِ ربی عترت کے نام ہو
ہے ناز امتی کو آقا حسین پر
حسنین پر خدایا تیرا سلام ہو

23
ہے میلادِ دلبر خوشی سب مناؤ
مسرت کے ڈنکے جہاں میں بجاؤ
خدا کے نبی آج دنیا میں آئے
امنگیں ہیں پوری جہاں کو سناؤ
فلک سے ملک آئے بی آمنہ
سنیں ان سے لوری کہیں ان کو گاؤ

27
اے خلد کی بہارو آمد ہے مصطفیٰ کی
جنت کے عہدہ دارو آمد ہے مصطفیٰ کی
راحت ہے نوریوں کو عیدوں میں عید ہے یہ
خوشیوں سے سب پکارو آمد ہے مصطفیٰ کی
ہو دید سیر ہو کر نورِ حبیبِ رب کی
امبر کے شمس تارو آمد ہے مصطفیٰ کی

26
یہ عطر پون جو لاتی ہے، لگے اُن کے شہر سے آتی ہے
کیا خوب ہے راہ، چلو چلتے ہیں، یہ شہرِ مدینہ جاتی ہے
جو گھڑیاں ہجر میں مشکل ہیں، یہ کیسے فراق میں اب گزریں
دل خون کے آنسو روتا ہے، جب یاد سجن کی آتی ہے
جب گریاں میں غم سے ہوتا ہوں، آنکھ سے بارش ہوتی ہے
میں جاگوں طیبہ کے غم میں، اس فکر میں آنکھ ہے وا رہتی

21
آقا امت کے رکھوالے، تیرے فیض سدا ہیں نرالے
شاہا کالی کملی والے، تیرے فضل کے ہیں متوالے
چندہ سورج میں جو ضیا ہے، تیرے نور سے دان ملا ہے
تیرے در سے نور، ضیا لے، گھر تیرے سے،سب ہیں اُجالے
یہ جو محفلیں ہیں نورانی، یہ ہیں دانِ نبی سے نشانی
اے داتا مزمل والے، مجھے اپنے ہی در پہ بٹھا لے

20
دلدارِ رحمٰں میرے ہیں سلطاں
سرکارِ ذیشاں میرے ہیں سلطاں
ہستی تھی بے کل ایسے باشندے
راحت کا ساماں میرے ہیں سلطاں
کب مانگوں جنت کب اس کے غلماں
حزنِ کا درماں میرے ہیں سلطاں

17
گدا ئے نبی ہیں صدا کر رہے ہیں
مدد کر دے مولا دعا کر رہے ہیں
حسیں نعتیں جن کی زبانِ خلق پر
زماں سارے ان کی ثنا کر رہے ہیں
ہے گہنہ خلق کا ثنا مصطفیٰ کی
جہاں آپنے حق ادا کر رہے ہیں

30
ثنائے حبیبِ خدا کر رہے ہیں
خزیں ہیں دلوں کی دوا کر رہے ہیں
قصیدے ہیں قرآن میں مصطفیٰ کے
ضیا سے جو دل کی جِلا کر رہے ہیں
بنا نور ان کا ہے مبدا دہر کا
جہاں مصطفیٰ کی ثنا کر رہے ہیں

19
آمدِ سرکار سے طاغوت ہے بے دم ہوا
آ گئے جو مصطفیٰ، ہے وصفِ کالک کم ہوا
شاد کرتی ہیں دلوں کو دلربا کی چاہتیں
فکرِ فردا کس لئے کافور دل سے غم ہوا
ختم اُن کے نور سے ہیں کل اندھیرے دہر کے
ضوفشانی ہر جگہ ہے شرک کا ماتم ہوا

24
دونوں جہاں کے دلبر سردارِ انبیا
سب سے حسین آقا محبوب کبریا
تخلیقِ خلق یزداں خاطر حبیب کی
توصیف مصطفیٰ کی کرتی ہے جو سدا
ارض و سما میں محفل اُن کے لئے سجی
ہر آن کام جس کا، سرکار کی ثنا

16
مژدہ نبی کو رب نے قرآں میں یوں دیا
قُل کے امر کو اُن کا اعزاز کر دیا
سب سے بڑی خبر ہے ہادی سے جو ملی
واحد صمد ہے خالق ہستی نے سن لیا
سرکارِ دوسریٰ ہیں مقصودِ کائنات
یکتا جنہیں خدا نے مخلوق میں کیا

21
کرتا ہے عرض آقا عاجز غلام تیرا
بگڑی بنائیں سرور یہ بردہ خام تیرا
طاری رہے زباں پر، جب تک ہے سانس جاری
روشن رکھے یہ سینہ تاباں ہے نام تیرا
رحمت محیط تیری ڈوبے جہان اس میں
کرتی ہے ذکر ہستی شاہا دوام تیرا

23
شہرِ نبی میں مولا یہ زندگی بسر ہو
دلدار کی گلی میں میرا حسین گھر ہو
گزریں جو رات دن پھر بطحا میں نور والے
دیکھوں فضائیں نوری، نوری یہاں سحر ہو
جالی کے روبرو ہی، دائم کھڑا رہوں میں
بابِ نبی سے مولا میری سدا گزر ہو

22
رتبہ خلق میں اعلیٰ سرکار مصطفیٰ کا
تاباں ہے مہر سے بھی کردار مصطفیٰ کا
کل امتوں کے شافی پیارے حبیبِ رب ہیں
کیا دان ہے عوامی دلدار مصطفیٰ کا
راضی خدا کرے گا قرآن میں ہے آیا
توصیف گر ہے ہر دم جبار مصطفیٰ کا

22
خدا نے یوں ڈنکے نبی کے بجائے
قصیدے نبی کے ہیں قرآں میں آئے
حسیں حسن ان کا بنا حسنِ ہستی
ہیں اعلان کن کے امر نے سنائے
کیا ذکر اونچا نبی کا خدا نے
ہیں احساں خدا نے نبی کے جتائے

20
﷽ﷺ
ہے نزہتِ بطحا سے من، ساری سرودِ زندگی
یعنی نبیؐ کے فیض سے، ارزاں لگے آسودگی
ہے نبضِ ہستی کا جو مبدا، اک تجلیٰ خاص سے
وہ نُور تھا سرؐکار کا، جس سے دہر چلنے لگی
تھا قعرِ ظلمت میں گرا جو، انساں اپنے فعل سے

24
آمدِ سرکار سے سب برکتیں ہیں دیکھ لیں
بیش فیضِ ذات سے جو رحمتیں ہیں دیکھ لیں
کبریا نے خود بلایا یاد کر قصرِ دنیٰ
اوجِ پر اس دلربا کی عظمتیں ہیں دیکھ لیں
خلق کی وہ ابتدا تھی نور سے سرکار کے
کیسے ان سے دور تر وہ ظلمتیں ہیں دیکھ لیں

26
سب سے ہیں حسیں لگتے جو جلوے ہیں طیبہ کے
دل چاہے نظر دیکھے جو جلوے ہیں طیبہ کے
جس راہ سے ہیں گزرے کبھی زائرِ طیبہ کے
انہیں پیارے نظر آئے جو جلوے ہیں طیبہ کے
مولا میں چلا آؤں پھر راہوں پہ طیبہ کی
ہر سمت حزیں دیکھے جو جلوے ہیں طیبہ کے

26
مدینے کے والی شہے دوسریٰ ہیں
امامِ امم ہیں دلوں کی ندا ہیں
ردائے کرم مصطفیٰ سے جہاں پر
خلق کا جو کرتے سدا ہی بھلا ہیں
اسیروں فقیروں کے رکھوالے آقؐا
جہاں بھر کے سلطاں انہی کے گدا ہیں

19
رب قدر کرے دلداروں کی
سرکار کے کل حب داروں کی
دلبر سے رفاقت جن کو ملی
کیا شان ہے خدمت گاروں کی
جن راہوں پہ آقا گزرے ہیں
زہے قسمت ان بازاروں کی

25
مدینے سے آئی چمن میں ہوا ہے
سہانی صدا اس میں صلے علیٰ ہے
گراں دان لائی شہے دوسریٰ سے
جھپا اس میں سب کا بھلا ہی بھلا ہے
ہیں داتا خلق کے حبیبِ اِلہ ہی
حسیں فیض جن کا عطائے خدا ہے

22
سدا مصطفیٰ پر صلاۃ و سلام
ملے جن کو خالق سے عالی مقام
جو عکسِ جمالِ الہ حسن ہے
ذکر اُس حسن کا، ہے بالائے بام
سدا مصطفیٰ پر صلاۃ و سلام
وہ محبوبِ رب ہیں، حبیبِ خلق

21
محبوبِ دو سریٰ کو، درجہ عُلیٰ ملا ہے
لولاک اُن کو کہتا، دارین کا خدا ہے
نعتِ حبیب میں ہیں، حمدِ حمید کے رنگ
جانِ جہاں نبی ہیں، خوش اُن سے کبریا ہے
جھومیں ذکر سے اُن کے، گردوں میں چلنے والے
یہ ورد اُن کو رب نے، کیسا سکھا دیا ہے

32
میری جو عاجزی ہے، دربارِ یار لے جا
یہ اشک حِجر کے ہیں، بادِ بہار لے جا
نالاں کھڑا ہوں اس جا، شہرِ نبی کے زائر
کچھ نالے میرے دل کے، اُن کے دیار لے جا
گر تیرے راستہ میں، ہوں طُور سے وہ جلوے
تو اپنے ساتھ میرے، ہوش و قرار لے جا

26
سرکارِ دو سریٰ میں ادنیٰ غلام تیرا
بگڑی بنائیں میری بالا مقام تیرا
جب تک ہیں سانسیں جاری ہو یاد بس تمہاری
جاری رہے لبوں پر محبوب نام تیرا
رحمت محیط تیری سارے جہان کو ہے
کرتی ہے ذکر ہستی شاہا دوام تیرا

25
ذکرِ سرکار، جنت کی بھی رعنائی ہے
ہر موڑ پہ جیون کے، لایا جو بھلائی ہے
جس سمت نظر جائے، نظارہ ہے یہ دیتا
خیر اُن کے حسن سے، حسینوں کی جو زیبائی ہے
لے آئے جو شوق مجھے، جالی کے مقابل میں
میں جانوں جہاں ہوتی، سینوں کی صفائی ہے

32
آقا امت کے رکھوالے
تیرے فیض سدا ہیں نرالے
تو ہی فیض کرم کے ڈالے
شاہا کالی کملی والے
چندہ سورج میں جو ضیا ہے
تیرے نور سے دان ملا ہے

25
یہ ہستی خوب سجائی ہے
اک رونق اس میں آئی ہے
ہیں دہر میں آئے پاک نبی
کونین ہے ان سے نور بھری
سرکار ہیں نعمت سب سے بڑی
امید ہے جن سے سب کو لگی

17
ہیں جن کے شیدا غوث و ولی
اس یار کی حب ہے بھلی سے بھلی
یہ ہستی خوب سجائی ہے
کیا رونق دہر میں آئی ہے
جب آئے تھے اس میں پاک نبی
کونین تھی ساری خوب سجی

24
مقصودِ گلستاں میں بطحا سے ہوا ہے
جو پھول چمن میں ہے داتا سے ملا ہے
ہے روپ سحر میں جو یہ لاگے حسیں کیسا
یہ روزِ ازل سے ہے آقا نے دیا ہے
کوثر سے یہ ہم سمجھے ہیں سارے جہاں اُن کے
اور گہنے میں ہستی کے دلبر کی ثنا ہے

22
بانٹیں جو دانِ یزداں محبوبِ کبریا ہیں
کونین میں ہیں اعلیٰ سلطانِ دو سریٰ ہیں
بعد از خدا ہیں درجے آقائے دو جہاں کے
وجہہ سکونِ ہستی مختار مصطفیٰ ہیں
جلتے ہیں کیفَ کے پر جن کی جناب میں دل
کیسے بتائیں درجے اُن کو ملے کیا ہیں

24
کرم ہو حبیبی مدینے میں آؤں
نصیبہ ہو روشن میں خوشیاں مناؤں
مدینے میں دیکھوں حسیں سبز گنبد
نظارے میں سارا جہاں بھول جاؤں
ہو منظر میں جس دم سنہری وہ جالی
درودوں کے موتی لبوں پر سجاؤں

20
مانگے عطا یہ دل بھی، شاہِ حجاز کی
دلدارِ کبریا کی، بندہ نواز کی
مولا ثنا نبی کی ایسی کرے زباں
تاثیر بانٹے جیسے ہستی کے راز کی
مدحت سرا یہ بلبل، میرے ہوں ہم نوا
دیکھے تڑپ زمانہ، اس دل کے ساز کی

23
ہو عشق میرے دل میں شاہِ حجاز کا
مختار مصطفیٰ کا بندہ نواز کا
مدحت حضور کی میں ایسے بیاں کروں
مندوب راگ ہو جو ہستی کے راز کا
مرغِ چمن یہ سارے اپنے رقیب ہوں
مقبول ہو ترانہ نغمہ نواز کا

18
رکھے اونچے جن کے خدا نے مقام
سدا ان پہ آئیں درود و سلام
مقدر میں جن کے مدینہ لکھا
وہ سمجھیں کہ تحفہ خدا سے ملا
بنا میرے مولا نبی کا غلام
ملیں جن کو تیرے درود و سلام

28
یہ جو جانِ دو جہاں ہیں، میرے وہ مصطفیٰ ہیں
شہکار یہ ہی رب کے، بنے شانِ دو سریٰ ہیں
واصل جو اپنے رب سے، خلقِ خدا میں ہیں
ہادی یہ مصطفیٰ، دلدار و جانِ ما ہیں
لولاک سے ہے مژدہ، کوثر تمام اُن کا
خاطر جہاں جن کی، مولا ہی جانے، کیا ہیں

23
کونین کا کل حسن ہے، پَرتو جمالِ مصطفیٰ
جو کائناتِ حسن ہیں، یا حسن ہیں اس دہر کا
دونوں جہاں کے، کل گلستاں، فیض لیں سرکار سے
دیتا ہے سب کو کبریا، ہیں واسطہ صلے علیٰ
معمور اُن کے نور سے ہیں، مہر تارے اور قمر
جُملہ چمن کے روپ میں بھی، جلوہ ہے سرکار کا

23
رتبہ حبیبِ رب کا دائم رہا نرالا
جن کی ہے رحمتوں کا ہر آن بول بالا
نورِ نبی سے تاباں ہستی کے استھاں ہر دم
جس کے اثر سے ہوتا ہے کفر کا ازالہ
اذنِ الہ سے بانٹیں وہ رحمتیں خدا کی
ہر فیض مصطفیٰ سے ہر حال میں ہے اعلیٰ

25
جو ان کی جستجو ہے یہ کرم حضور کا ہے
یہ جو دل کی آرزو ہے یہ کرم حضور کا ہے
اللہ کے بعد وہ ہیں ان کے ہیں بعد ہی سب
حق حق ہے حق ہو ہے یہ کرم حضور کا ہے
نورِ نبی جو پیدا خالق کے نور سے ہے
اس سے ہی سب نمو ہے یہ کرم حضور کا ہے

21
عطرِ نبی فضا میں لائی ہیں جو ہوائیں
جانب یہ امتی کی اُن کے حرم سے آئیں
پُر رحمتوں سے کرتیں کونین کے کراں ہیں
یادِ حبیبِ رب سے ہوں دور سب بلائیں
صلے علیٰ نبینا صلے علی محمد
روشن کریں درودوں کی دہر کو صدائیں

22
مدینے سے آئیں کرم کی ہوائیں
مقدر دہر کے یہی جگمگائیں
ہے گھیرا فلک کو سدا رحمتوں کا
کریں فضلِ حق کی اے طالب دعائیں
چراغاں ہے النجم سے ہر فلک پر
منور ہیں الشمس سے یہ فضائیں

42
مولا میں یوں خیال میں، نعتِ نبی پڑھوں
لفطوں میں عکسِ جان کو، پورا اتار دوں
اعلیٰ حبیب تیرے ہی، سب سے حسین ہیں
میری مجال ہے کے یوں، نعتیں میں کہہ سکوں
قرآن میں ہیں یٰس وہ، طٰہٰ بھی شانِ مصطفیٰ
اوصاف اس لبیب کے، کیسے بیاں کروں

23
جو حسنِ مصؐطفیٰ ہے، وہ بے مثال ہے
عکسِ جمالِ یزداں اُن کا جمال ہے
جس نے رکھی ہے بس میں ساری مصوری
تصویر اِس حسن کی اُس کا کمال ہے
ان سا حسیں کسی اور ماں نے نہیں جنا
جن کی مثال ڈھونڈیں کس کی مجال ہے

30
حبیبی یہ آقا نبی مصطفیٰ ہیں
بزرگی میں اعلیٰ جو بعد از خدا ہیں
امام الامم ہیں صفِ انبیا میں
جو ساری خدائی میں سب سے سوا ہیں
یہ محبوبِ رب جو دکھوں کا ہیں درماں
صلاۃ اُن پہ دائم وہ صلے علیٰ ہیں

31
نغمے حبیبِ رب کے، گاتے رہیں گے ہم
شیریں یہ، مصطفیٰ سے، کھاتے رہیں گے ہم
تاباں رہیں وہ گھڑیاں، گزریں جو یاد میں
محفل میں جانِ ما کی آتے رہیں گے ہم
آفاقِ دہر پر یوں، نوری گھٹا رہے
وردِ صلاۃ ہر دم، کرتے رہیں گے ہم

25
پرتو جمالِ یزداں ہے جلوہ حبیب کا
یعنی ضیائے مصطفیٰ محبوبِ کبریا
نوری کے دائرے میں ہے سدرہ تلے تمام
گردوں مگر خباب ہے ان کے محیط کا
عکسِ جمالِ مصطفیٰ منظر جہان کے
قاسم عطائے یزداں کے سرکارِ دوسریٰ

23
قبلہ گاہِ عشق ہے نورِ جمالِ مصطفیٰ
یہ جمیلِ کبریا یعنی بہارِ دوسریٰ
جس تجلیٰ سے بنی ہیں رونقیں گلزار کی
وہ ضیائے ابتدا بھی جلوہ ہے دلدار کا
ہیں حبیبِ عارفاں، جان و جمالِ دو جہاں
حسنِ موجودات ہیں، یا پھر جہاں، ہیں حسن کا

29
جو جانِ دو سریٰ ہیں
میرے وہ مصطفیٰ ہیں
ثابت ہے ابتدا سے
واصل ہیں وہ خدا سے
دارین کی وجہ ہیں
رتبے میں بھی سوا ہیں

21
جو جانِ دو سریٰ ہیں، میرے وہ مصطفیٰ ہیں
رتبے ہیں اُن کے اعلیٰ، کونین کی وجہ ہیں
واصل ہیں وہ خدا سے، ثابت ہے ابتدا سے
کہتا نہیں الہ ہیں، واللہ وہ کب خدا ہیں
دونوں جہاں ہیں اُن کے، ڈنکے بجے ہیں جن کے
یعنی عطا کے مالک، مقصودِ دوسریٰ ہیں

25
تقدیر جگمگائی آفاقِ دوسریٰ کی
ہستی دہر میں آئی دلدارِ کبریا کی
ہیں خندہ زن افق یہ اس ظلمتِ جہاں پر
شاید وجہ خبر ہے مولودِ مصطفیٰ کی
معمور چار دانگ گوناں سجھے ہیں منظر
تاباں کرے جو عالم ہے ذات دلربا کی

29
سایہ ملا ہے جس کو میرے حضور کا
آقا ضیائے ہستی مولا کے نور کا
قرباں ہے جان کرتا آلِ رسول پر
کشتہ یہ نامِ رب کا بردہ حضور کا
مقصود منزلوں کے ان کے غلام ہیں
جن کو کہاں ہے خدشہ یومِ نشور کا

37
راحت بنی ہے من کی کیسی ہے یہ ہوا
شہرِ نبی سے ہے یہ تاباں کرے فضا
میلاد کا ہے ہمدم پیغام خلق کو
کہتی ہیں آمنہ بی آئے ہیں مصطفیٰ
گردوں سے آ رہے ہیں نغماتِ دل پذیر
صلے علیٰ حبیبی صلے علیٰ شہا

26
میلاد مصطفیٰ کا کرتے رہیں گے ہم
کچھ رنگ انجمن میں بھرتے رہیں گے ہم
آفاقِ دو جہاں میں کیسا سماں بندھا
صلے علیٰ کے عامل بنتے رہیں گے ہم
مولود ہے حسیں کا رنگین ہے فضا
یادِ نبی سے دامن بھرتے رہیں گے ہم

30
یہ جشنِ شادمانی میلادِ مصطفیٰ ہے
تشریف لانے والا دلدارِ کبریا ہے
قاسم یہ رحمتوں کے لائے جہاں میں رحمت
دل شاد ہر زماں میں ان کا گدا رہا ہے
آئے جہاں میں پیارے یہ لال آمنہ کے
کونین پر یہ احساں مولا نے کر دیا ہے

32
ورودِ نبی کی ضیا دیکھتے ہیں
دہر کا جو چہرہ نیا دیکھتے ہیں
عجب تھی ولادت کہے آمنہ بی
برج کسریٰ کا جو گرا دیکھتے ہیں
حلیمہ بھرے گود حسنِ جہاں سے
وہ چہرہ نبی کا کِھلا دیکھتے ہیں

34
مدحت نبی بیاں ہے اوصافِ کبر یا
اعلیٰ شرف ہے یارو توصیفِ مصطفیٰ
مولا کے کرم کی ہے تعمیم یہ جہاں
اور دہر میں سہانی ہے فاراں کی فضا
مقصودِ دل ہے جس کا بطحا میں آشیاں
لا ریب وہ جہاں میں با ظرف ہے رہا

43
ماناں وقوعِ کن فکاں، پارینہ راز ہے
قادر ہے جو قدیر ہے، وہ کار ساز ہے
عکسِ جمالِ یزداں، سے ہے، حسنِ مصطفیٰ
دیتا جو روپ سب کو ہے، یہ چارہ ساز ہے
نورِ نبی سے ہے رواں، کونین کا وجود
جس کو ملی خدا سے یہ، عمرِ دراز ہے

38
جھونکا چمن میں آیا کیسی بخور کا
دامن ہلا ہے شاید میرے حضور کا
لائی جو دل میں راحت ایسی ہوا ہے یہ
فیضِ کمال ہے یہ ربِ غفور کا
مولا کے کرم سے ہیں اس کی عنایتیں
صدقہ ملا یہ ہم کو مولا کے نور کا

33
مدینے سے لطف و کرم کی ہوا ہے
معطر اسی سے دہر کی فضا ہے
ہوئی دور اس سے نحوست جہاں کی
یہ ٹھنڈک ہے جاں کی دلوں کی ضیا ہے
ملے دان اس سے خلق کو نیارے
یہ درماں دکھوں کا پیامِ غنیٰ ہے

30
اقرارِ عشقِ احمد اب دھوم سے ہو یوں
میلاد کا سماں ہے مستی میں چور ہوں
دل چاہے آج میرا نعتِ نبی سنوں
مولودِ دلربا کے نعرے عُلیٰ کروں
آئے جہاں میں آقا دونوں جہاں کے آج
دیوانہ ہوں میں ان کا دیوانہ میں رہوں

23
مدینہ مدینہ دلوں کی سدائیں
غلامِ نبی چل مدینے کو جائیں
سدا گیت گائیں مدینے کے ہمدم
جو منزل ہے نوری منور ہیں راہیں
حرم دلربا کا فضائے مدینہ
ملو ساتھ گجرے درودوں کے لائیں

34
جلوے سے ان کے تاباں سارے کراں دہر کے
کونے ہوں چاند کے وہ یا گوشے ہوں مہر کے
ان کے ورود سے ہے افلاک میں یہ جھلمل
دیکھیں اشارے جن کے ٹکڑے کریں قمر کے
استھاں بنائے رب نے دونوں جہاں میں سارے
جن میں ہیں جشن جاری لولاک کی خبر کے

36
جو تشریف لائے نبی مصطفیٰ
مدینے کو گوناں سجایا گیا
یہ خطہ درخشاں منور ہوا
کہ آئے ہیں اس جا حبیبِ خدا
کرم کی مدینے سے آئی ہوا
معطر ہے کتنی دہر کی فضا

30
لاؤں درود شاہا خدمت میں صد ہزار
جاری رہے زباں پر یہ ورد بار بار
میں جانوں مصطفیٰ ہیں قلزم وہ فیض کے
ہستی کے ہر چمن کو جن سے ملی بہار
قرباں کروں میں جاں بھی آلِ رسول پر
میرے کریم آقا بردوں میں ہو شمار

27
محمد محمد دلوں کی صدا ہے
لیا نامِ احمد مزہ آ گیا ہے
صفِ انبیا کے ہیں دولہا یہ سرور
کہاں ہے جو ان سا کہیں دوسرا ہے
وہ داتا سخی پیارے ہادی جہاں کے
سدا یزداں راضی انہی پر رہا ہے

25
ہوئے جلوہ ہائے دہر یوں فروزاں
جہاں میں جو آئے نبی نورِ یزداں
یہ لال آمنہ کے نبی مصطفیٰ ہیں
خلق میں جو اعلیٰ زمانے کے سلطاں
کرم بن کر آئے حبیبِ خدا یہ
وحی جن پہ آیا ہے خالق سے قرآں

38
یہ کس نے ضمیرِ دہر کو ہلایا
ہے سجدوں سے پھر اس حرم کو بسایا
یہ انساں بڑا تھا جو ظالم کہیں کا
اسے خوابِ غفلت سے کس نے جگایا
شرف اس کو بخشا عطائے نبی نے
اسے مشتِ خارا سے کندن بنایا

31
اگر وہ حسن اپنے جلوے دکھا ئے
دہر نغمے اس کی تجلیٰ کے گائے
حسن کا یہ جلوہ ہے نورِ نبی سے
خدا کی ہے مرضی خلق جو بنائے
بڑی شان والا یہ نورِ الہ ہے
یہ ہی نورِ یزداں خلق کو سجائے

61
ہے آرزو یہ دل کی ان کی سنائے نعت
ہر من میں تشنگی کو مولا مٹائے نعت
الطافِ مصطفیٰ سے ہستی میں ہے سکوں
راحت بنے جو جاں کی من میں وہ آئے نعت
میری یہ آنکھ دیکھے انوارِ دل پزیر
جائے نظر یہ جس جا مولا یہ لائے نعت

32
نغمہ جہانِ کن میں، حبیبِ خدا کا ہے
پیارے درودِ مصطفیٰ، صلے علی کا ہے
جس سے حسیں ہوئے ہیں، سارے چمن کے گُل
خٰیر سے یہ پرتو بھی، نور ہدیٰ کا ہے
تاباں جہان دہر کے، ذاتِ لیب سے ہیں
دیتے ہیں جو بھی مصطفیٰ، ذاتِ الہ کا ہے

24
پیدا کہاں جو خلق میں تجھ سا عظیم ہے
ہادی ہے مصطفیٰ ہے وہ، دل کا حکیم ہے
ڈھونڈا ہزار میں نے، نہ دیکھا دہر نے وہ
کوئی نہیں ملا ہے جو، تجھ سا کریم ہے
ادراک کو خبر ہے کب، اس کے عروج کی
اس قربتِ دنیٰ میں جو، رب کا کلیم ہے

27
کبھی نعتیں ہم بھی نبی کی سنائیں
سدا نغمے ان کے محبت سے گائیں
نہیں ہے جو پیدا ہوا اور ان سا
کوئی غیر ہادی نہ ڈھونڈیں نہ چاہیں
نبی چاہیں جس کو چلا آئے در پر
ہوا ان سے کہنا ہمیں بھی بلائیں

32
دیا مصطفیٰ نے ہے وہ کیمیا
مسِ خام کو جس نے کندن کیا
ہے آذاں بلالی انہی سے خبر
سدا آئے جن پر درودِ خدا
چمن میں سدا ہے نبی سے بہار
یہ گردوں ہے دوراں انہی سے ہوا

27
ہجرِ نبی میں جب دل ہوتا ہے بے قرار
گریاں یہ آنکھ میری ہوتی ہے بار بار
دل سے پیام ہے یہ بادِ مدینہ لے
کہنا کریم آقا بردہ ہے اشکبار
مشکل بڑی ہیں گھڑیاں ہجر و فراق کی
کہتا ہے پیارے در پر آئے یہ جاں نثار

28
کبھی حسنِ جاں سے سرک پردے جائیں
حسیں نعتیں پھر ہم نبی کی سنائیں
ہے محبوب مجھ کو مدینے میں رہنا
جو نوری ہے وادی منور فضائیں
یہ شہرِ نبی ہے نگینہ دہر کا
نظارہ ہے دلکش معطر ہوائیں

34
نا بود سے جو قادر، پیدا جہاں کرے
اس کی ثنا یہ عاجز، کیسے بیاں کرے
ناپید سے، چمن ہے، گلشن میں پھر بہار
پردے ہیں یہ حسن پر، کیسے عیاں کرے
وہ ہے، کہے جو ہے، قابو رکھے خلق پر
جرات کہاں ہے، اور کی، پیدا وہ جاں کرے

32
جو گریاں سے داماں ہے تر ہو گیا
یہ توصیفِ جاں کا اثر ہو گیا
ہو وردِ زباں یارو صلے علیٰ
کہ دنیا سے دل بے خبر ہو گیا
جگر جان و ساماں برائے حیات
نبی مصطفیٰ کی نذر ہو گیا

38
ممکن کہاں بشر سے مدحت حضور کی
چھائی ہے کل دہر پر رحمت حضور کی
خیر البشر ہیں آقا امی لقب نبی
قدرت نے ہے بڑھائی عزت حضور کی
راہِ خدا میں قرباں آقا حسین ہیں
رکھتی ہے فیضِ دائم نسبت حضور کی

27
خلقِ خدا میں چیدہ مرسل تمام ہیں
لیکن یہ فخرِ آدم ان کے امام ہیں
جو مزنبیں کے شافی دولہا ہیں حشر کے
مولا کے ہیں یہ دلبر خیر الانام ہیں
سب سے بڑی ہے ملت امت حبیب کی
جس میں لبیبِ رب کے ہم بھی غلام ہیں

112
تقدیر اس دہر کی جس نام سے سجی ہے
مشکل جہانِ کن کی اس ذات سے ٹلی ہے
توقیر اس اسم کی یوں کرتا ہے کبریا بھی
یہ حرف عرشِ رب پر لکھا ہوا جلی ہے
آباد ہر چمن ہے اس کے اثر سے پیارے
شاخِ امید اس سے ہر باغ میں پھلی ہے

1
40
دل یادِ دلربا میں ہے اشکبار ہوتا
دردِ فراقِ دلبر ہے بار بار ہوتا
جانا یہ چاہے بطحا کوچے میں مصطفیٰ کے
یادوں میں جب نبی کی ہے بے قرار ہوتا
باراں ہوں رحمتوں کے عاجز کھڑا ہے در پر
جو اپنے فعل سے ہے اب شرم سار ہوتا

30
پیدا کہاں دہر میں ان کی مثال ہے
عکسِ جمالِ یزداں جن کا جمال ہے
ان کی نظر سے بردے مولا دہر کے ہیں
کرنا خدا سے واصل ان کا کمال ہے
جو دین لائے ہادی مولا کریم سے
اس میں اثر ہے ایسا جو لا زوال ہے

40
گراں لطف اُن کا، گدا دیکھ کر
ہیں ششدر کھڑے سب، عطا دیکھ کر
اے مومن نبی کو ہے تیرا خیال
پریشان ہیں جو، خطا دیکھ کر
دکھائیں وہ راہیں جو جائیں ارم
وہ جنت گیا جو چلا دیکھ کر

32
خلقِ خدا میں چیدہ، مرسل تمام ہیں
لیکن یہ فخرِ آدم، سب کے امام ہیں
جو مزنبیں کے شافی، دولہا ہیں حشر کے
خلقِ خدا کے دلبر، خیر الانام ہیں
سب سے بڑی ہے ملت، امت حبیب کی
انعام جس کو حاصل، مولا سے تام ہیں

35
ہو زینت لبوں کی، ثنائے حبیب
سجے میرے سر پر، ردائے حبیب
ہے آلِ نبی پر، یہ قربان جاں
حزیں کا ہے من بھی، فدائے حبیب
ہیں نعمت کے قاسم، خزانے ہزار
لگیں دو جہاں ہیں، گدائے حبیب

33
ربِ امتی ہے دعائے نبی
خبر حکمِ یزداں عطائے نبی
گئیں ظلمتیں اس دہر سے گئیں
کہ آئی جہاں میں ضیائے نبی
چلے راہ سیدھی یہ امت سدا
ہے ہر آن مومن رضائے نبی

28
جنہیں قادر نے دلدار کہا
انہیں شان سے پھر مختار کیا
کوثر ہے خدا سے ان کو ملی
وہ داتا دہر کے عین سخی
یہ قدرت نے اظہار کیا
جو نبیوں نے پرچار کیا

30
چھڑیں سازِ محبت کے ہو دور یہ تنہائی
ملے عین نظارے کو سرکار سے زیبائی
وہ راحتِ جاں دلبر ہیں جان جہانوں کی
جو کرتے ہیں منظر میں اک شان سے رعنائی
ہر موڑ پہ جیون کے اس نور کے جلوے ہیں
جس سمت نظر جائے ہے ان کی پزیرائی

28
ڈھونڈوں میں خلق میں تب ایسا اگر کہیں ہے
ملتا دہر میں وہ بھی پیدا اگر کہیں ہے
سالارِ انبیاء ہیں آقا حبیبِ یزداں
ہوتا وہ پیش ان کے ویسا اگر کہیں ہے
محشر میں انبیا ہیں خدمت میں مصطفٰی کی
جاتے وہ غیر کے در رہتا اگر کہیں ہے

21
ملالِ من نے مارا ہے، حبیبی یا رسول اللہ
حزیں دل کا تو چارا ہے، حبیبی یا رسول اللہ
کٹھن گھڑیاں، غمِ جاناں، کریمی کرم فرماناں
نگاہِ لطف یارا ہے، حبیبی یا رسول اللہ
کبھی کوئی گیا خالی، سخی دربار تیرے سے
عطا تیری سہارا ہے، حبیبی یا رسول اللہ

28
کوئی نگاہ کو کب، ویسا دکھا سکوں
گر ہو دہر میں اُن کے، جیسا دکھا سکوں
وہ انبیا کے پیارے، پیشِ امام ہیں
اعزاز یہ میں اُن کا، یکتا دکھا سکوں
معصوم بھول سے کب، کوئی کہیں رہا
لیکن شفیع محشر، آقا دکھا سکوں

23
ذکرِ نبی دلوں کے گلشن سجا رہا ہے
اجڑے دیار تھے جو جنت بنا رہا ہے
نامِ نبی سے سینہ ہے باغ باغ ہوتا
لگتا ہے دل نکل کر بطحا کو جا رہا ہے
راضی خدا ہے تم پر فاراں کو جانے والے
کر ناز میرے ہمدم دلبر بلا رہا ہے

32
جن کی عطا سے روشن طالع بشر کے ہیں
تاباں انہی سے گوشے مہر و قمر کے ہیں
فٰیاض مصطفیٰ سے اجرا ہیں رحمتیں
نوری اسی کرم سے منظر سحر کے ہیں
یادِ نبی سے ہر دل ہوتا ہے باغ باغ
گلشن نظارے تابع ایسے اثر کے ہیں

25
عجب ہے مزہ جو مدینے میں ہے
کہ جانِ جہاں اس نگینے میں ہے
الٰہی عطا ہو بسیرا یہاں
وجہ ہے یہی اب جو جینے میں ہے
حسیں سبز گنبد سجائے خیال
تمنا ہو پوری جو سینے میں ہے

35